Author Archives: nice

قومی ویمن فٹبال چیمپئن شپ کا ابتدائی راؤنڈ اگلے ہفتے شروع ہوگا

قومی ویمن فٹبال چیمپئن شپ کا ابتدائی راؤنڈ اگلے ہفتے شروع ہوگا

بارہویں قومی ویمن فٹبال چیمپئن شپ کا ابتدائی راؤنڈ اگلے ہفتے سے ملک کے مختلف شہروں میں شروع ہوگا۔ ایونٹ میں 24 ٹیمیں ایکشن میں ہوں گی جس کے بعد 8 ٹاپ ٹیمیں فائنل راؤنڈ کیلئے کوالیفائی کریں گی۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن (پی ایف ایف) کے مطابق قومی ویمن فٹبال چیمپئن شپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں 24 ٹیمیں 7 گروپس ...

Read More »

شام پر اسرائیل کے حملے میں 23 افراد جاں بحق

شام پر اسرائیل کے حملے میں 23 افراد جاں بحق، متعدد زخمی

شام کے دار الحکومت دمشق میں اسرائیل کے فضائی حملے میں 23 افراد جاں بحق  ہو گئے۔  شامی مبصر برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں دو شہریوں سمیت 23 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق شامی اینٹی ائیر کرافٹ ڈیفنس نے دمشق پر اسرائیلی جنگی طیاروں ...

Read More »

بھارتی جوڑے پر جرمنی میں کشميریوں کی جاسوسی کا الزام

بھارتی جوڑے پر جرمنی میں کشميریوں کی جاسوسی کا الزام

جرمنی میں مقیم بھارتی جوڑے پر سکھوں اور کشميریوں کی جاسوسی کا الزام ہے۔ جرمن میڈیا رپورٹس کے مطابق من موہن نامی بھارتی شخص اور ان کی اہلیہ کنول جيت پر جرمنی ميں سکھوں اور کشميریوں کی جاسوسی کا الزام ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مبینہ ایجنٹوں کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ میڈیا ذرائع کا ...

Read More »

آرمی چیف کا نوٹیفکیشن جاری، لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا کی جنرل کے عہدے پر ترقی،

آرمی چیف کا نوٹیفکیشن جاری، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا کی جنرل کے عہدے پر ترقی،

وزیراعظم عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا کوفور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے تین سال کے لئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کر دیا ہے۔  وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق جنرل ندیم رضا 27 نومبر کوجنرل زبیر محمودحیات کی جگہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ سنبھالیں گے۔  یہاں یہ ...

Read More »

فضل الرحمٰن کو متبادل سیٹ اپ میں جگہ کی یقین دہانی ملی

فضل الرحمٰن کو متبادل سیٹ اپ میں جگہ کی یقین دہانی ملی، تجزیہ کار

جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے موجودہ سیٹ اپ میں اپنے لئے کوئی جگہ نہیں مانگی ہے، مولانا کا مقصد نئے انتخابات اور اگلے سیٹ اپ میں اپنے لئے موثر جگہ حاصل کرنا تھا، انہیں اگر کوئی یقین دہانی ملی ...

Read More »

پی ٹی آئی کے ابتدائی 13؍ ماہ، قرضوں میں 35؍ فیصد اضافہ

پی ٹی آئی کے ابتدائی 13؍ ماہ، قرضوں میں 35؍ فیصد اضافہ

 پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کو کوسوں دور پیچھے چھوڑتے ہوئے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے اپنی مدت کے ابتدائی 13؍ ماہ کے دوران پاکستان پر گزشتہ 71؍ سال سے لیے گئے مجموعی قرضہ جات کا 35؍ فیصد مزید اضافہ کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان ...

Read More »

’’ڈرائیور‘‘ کے ’’اتحادی‘‘

میں ایک حکمران ہوں مگر اس کار کی طرح ہوں جس کے چار پہیے ہیں، چار دروازے ہیں۔ دو سیٹیں آگے، دو پیچھے ہیں۔ اس کا انجن بھی ہے مگر خرابی یہ ہے کہ اسے ابھی تک خود انحصاری کی عادت نہیں پڑی، چنانچہ اسے چلانے کیلئے ہمیشہ ’’اتحادیوں‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بوقت ضرورت اسے دھکا دے کر اسٹارٹ کرتے ہیں تاہم یہ گاڑی کئی دفعہ اسٹارٹ ہو جاتی ہے اور کئی دفعہ اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ اس کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ کہ اتحادی گاڑی کو دھکا لگانے کے لئے بظاہر ایک بینر کے نیچے جمع ہیں لیکن اندر سے یہ سب ایک دوسرے سے ’’خار‘‘ کھاتے ہیں چنانچہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان میں سے کچھ گاڑی کو آگے اور کچھ گاڑی کو پچھلی سمت میں دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں، نتیجتاً گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عین اس وقت جب گاڑی کو دھکا لگانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے اس اتحادی شعبے کا ایک فرد موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے ’’مجھے اس وقت پان کی بہت طلب محسوس ہو رہی ہے‘‘۔ میں کہتا ہوں ’’تم گاڑی کو دھکا لگاؤ میں تمہارے لئے پان منگواتا ہوں‘‘۔ اس کا جواب یہ ہوتا ہے ’’تم نے کبھی پان کھایا ہو تو تمہیں اس کے آداب کا پتا ہو‘‘۔ بھائی صاحب پان اپنے سامنے لگوایا جاتا ہے اس پر کتھا، چونا، سپاری حسب ذائقہ ہوتی ہے۔ بس میں ابھی گیا، ابھی آیا۔ وہ چلا جاتا ہے اور میں باقی تین اتحادیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اس کے آنے تک آپ تو دھکا لگائیں مگر ان میں سے ایک کہتا ہے ’’مجھے آج صبح سے چھینکیں آ رہی ہیں۔ جس کا مطلب ہے مجھے کوئی یاد کر رہا ہے۔ بس میں اسے مل کر ابھی آتا ہوں‘‘ تیسرا کہتا ہے ’’مجھے ابھی ابھی گھر سے فون آیا ہے، میری والدہ کا شوہر سیڑھیوں سے گر گیا ہے اسے اسپتال لے کر جانا ہے‘‘۔ میں کہتا ہوں تم سیدھی طرح والد کیوں نہیں کہتے۔ مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کا گھریلو معاملہ ہے۔ تم میرے اور میری والدہ کے شوہر کے معاملہ میں دخل دینے والے کون ہو؟ اور پھر وہ بھی چلا جاتا ہے۔ اس پر میں چوتھے اتحادی کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا ہوں مگر اس کا جواب یہ ہوتا ہے میں اکیلا تو دھکا نہیں لگا سکتا۔ ہاں اگر تم میں اتنی طاقت ہے تو ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بٹھاؤ اور خود نیچے اتر کر گاڑی کو دھکا دو مگر اسے کون سمجھائے کہ اصل مسئلہ ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا ہے۔ بہرحال وہ بھی چلا جاتا ہے اور میں بے بسی سے یہ سارا منظر دیکھتا رہتا ہوں۔ میری گاڑی کے اسٹارٹ نہ ہونے میں جو یہ رکاوٹیں گاہے گاہے پڑتی رہتی ہیں ان میں سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس کی ٹینکی میں کبھی پٹرول ہی نہیں ہوتا۔ جب میرے یہ اتحادی مجھ سے راضی ہوں تو وہ پٹرول کے بغیر بھی گاڑی کو دھکا دے کر اسے کافی دور تک لے جاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں انہیں راضی رکھنے کا ہنر جانتا ہوں۔ مجھے ان کے ہر طرح کے مطالبات پورے کرنا ہوتے ہیں اور دوسرے بوقت ضرورت اَنا، غیرت، حمیت اور اس طرح کے دوسرے الفاظ سے نمٹنے کے لئے میرے پاس ایک ایسی ڈکشنری ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہی نہیں ہیں۔ مجھے میرے کئی نام نہاد خیر خواہ یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ اس دھکا اسٹارٹ گاڑی کا کوئی فائدہ نہیں، اسے ’’ڈمپ‘‘ کرو اور کوئی نئی گاڑی خرید لو، ان احمقوں کو کیا علم کہ مجھے اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی گاڑی کے حوالے سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا مسئلہ ایک بار پھر درپیش ہوگا؛ تاہم آنے والے دنوں میں مجھے اس گاڑی کی بہت زیادہ ضرورت پڑنی ہے کیونکہ مجھے بوجوہ تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگانا پڑیں گے، اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ اتحادیوں بلکہ ’’مشقتیوں‘‘ کو بھی ساتھ رکھا جائے اور آنے والے دنوں میں کچھ ایسا بندوبست کیا جائے کہ ان ”مشقتیوں“ کے بغیر بھی میرا کام چل سکے۔ دراصل یہ گاڑی میرے ’’پیر سائیں‘‘ نے مجھے دان کی ہے اور ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر صرف تم نے بیٹھنا ہے کیونکہ میرے مریدوں میں تم سے زیادہ سعادت مند کوئی اور نہیں۔ اور ہاں ایک بات تو میں نے آپ کو بتائی ہی نہیں، ان دنوں کچھ اہم لوگ اس گاڑی میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی سنی بھی جارہی ہے بلکہ ہو سکتا ہے پیر سائیں نے اس حوالے سے اپنے کسی مراقبے کا حوالہ دے کر انہیں راضی کیا ہو۔ دراصل میرا ’’پیر سائیں‘‘ ایک متبادل منصوبہ ضرور ذہن میں رکھتا ہے۔

تحریر: عطا الحق قاسمی میں ایک حکمران ہوں مگر اس کار کی طرح ہوں جس کے چار پہیے ہیں، چار دروازے ہیں۔ دو سیٹیں آگے، دو پیچھے ہیں۔ اس کا انجن بھی ہے مگر خرابی یہ ہے کہ اسے ابھی تک خود انحصاری کی عادت نہیں پڑی، چنانچہ اسے چلانے کیلئے ہمیشہ ’’اتحادیوں‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بوقت ...

Read More »

سیاست کے دو رُخ

بڑے بڑے دانشوروں کی تحریروں سے گزرتے اور بڑے بڑے میڈیا ماہرین کی گفتگو سنتے ہوئے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے اور اختلاف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اخبار یا ٹیلی وژن چینل سے وابستہ حضرات کی اکثریت سے مطالعے، تحقیق اور غور و فکر کی توقع رکھنا دل شکنی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ ان لوگوں کو فرصت کم کم نصیب ہوتی ہے۔ ویسے بھی معاشرے میں ان کو اتنی پذیرائی اور شہرت مل جاتی ہے کہ وہ کتاب سے خاصی حد تک بے نیاز ہو جاتے ہیں اور عام طور پر شہرت کے تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں، البتہ کچھ حضرات کتاب سے تعلق نبھاتے ہیں اور غور و فکر کے لئے بھی وقت نکالتے ہیں۔ عام طور پر لیڈروں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس طرح لیڈران کی زندگی کو ذاتی اور عوامی شعبوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور بہت سی شرعی قباحتوں کو ذاتی زندگی کے خانے میں ڈال کر جائز اور ناجائز کی بحث سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ بادشاہتوں اور خاندانی آمریتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ ان معاشروں میں حکمرانوں کی جانب انگلی اٹھانے کی جسارت گردن زدنی کا باعث بھی بن سکتی ہے لیکن جمہوری یا نیم جمہوری نظام میں حکمرانوں کی ذاتی زندگی پر تصور موجود ہی نہیں ہوتا۔ حکمران ہر فعل کیلئے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر اقتدار کا تاج پہننے سے قبل بھی اس نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اقتدار میں آنے کے بعد اس کا بھی احتساب کیا جاتا ہے۔ حکمران یا لیڈر قوم کا رول ماڈل ہوتا ہے اور اس کی ہر حرکت، ہر پالیسی اور ہر اقدام قوم کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتا ہے۔ ہم نے گزشتہ 72برسوں میں یہاں اسی طرح کا کلچر پروان چڑھتے دیکھا ہے جس قسم کی حکمران کی شخصیت تھی، ہم نے قومی عادات، سماجی رویے حتیٰ کہ لباس کو بھی حکمرانوں کی شخصیت سے متاثر ہوتے دیکھا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر آپ خود غور کریں کہ ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق، بینظیر اور نواز شریف کے ادوار اور پھر جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں ہمارا معاشرہ کس طرح حاکموں کی شخصیتوں سے متاثر ہوتا رہا اور ان کی ذاتی زندگیوں کی پرچھائیں ہر طرف نظر آتی رہیں، اگر ضیاء الحق کے دور میں مساجد میں حاضری بڑھی اور شلوار قمیص واسکٹ کا رواج پروان چڑھا تو جنرل مشرف کے دور میں انگریزی لباس، نائو نوش اور رقص و سرور کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ کرپٹ حکمرانوں کے دور میں اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن نے رواج پایا اور ایماندار حاکموں کے دور میں کرپشن محتاط رہی۔ سیاست اور جمہوریت کا پہلا اصول ہی Transparency یعنی شفافیت ہے جس کا مطلب ہوتا ہے اندر باہر کا واضح ہونا، ذاتی اور سیاسی زندگی کا بے نقاب ہونا۔ اسی سے آزادیٔ اظہار کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اسی سے احتساب یا جوابدہی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ کسی لیڈر کے حوالے سے کسی بات کو ذاتی کہہ کر اسے ڈھال یا پردہ فراہم کرنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق سیاستدان اور لیڈر کے لئے سب سے اہم اور قیمتی شے اس کا ووٹ بینک، سیاسی حمایت اور پھر اسی حوالے سے اس کی پارٹی اور کارکن ہوتے ہیں۔ لیڈر ان شعبوں کو بچانے، محفوظ رکھنے اور مضبوط بنانے کے لئے ہمہ وقت سوچتا اور کام کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ان کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتا ہے۔ سینکڑوں مثالیں واضح کرتی ہیں کہ کس طرح لیڈر اور حکمران نے محض اپنے ان سیاسی اثاثوں کو بچانے کے لئے اقتدار چھوڑ دیا حتیٰ کہ جان بھی دے دی۔ بھٹو صاحب جب جیل میں پڑے موت کا انتظار کر رہے تھے تو بیشک وہ تاریخ میں سرخرو ہونے کا خواب دیکھ رہے تھے، تاریخ میں سرخرو ہونے کیلئے ہی مستحکم ووٹ بینک اور پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان قائداعظم کے ساتھی، تحریک پاکستان کے بڑے کارکن اور مقبول سیاسی لیڈر تھے۔ ملک و قوم کے لئے ان کا ایثار ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں دن دہاڑے شہید کر دیا گیا۔ ان کے مقابلے میں بھٹو صاحب نہ تحریک پاکستان کے لیڈر تھے اور نہ ہی قائداعظم کے ساتھی بلکہ آمریت کی پیداوار تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ موت کے بعد بھٹو صاحب لیاقت علی خان کے مقابلے میں زیادہ مقبول و موثر لیڈر بن کر ابھرے۔ بہت سی وجوہ ہوں گی لیکن میرے نزدیک اس صورتحال کی بڑی وجہ بھٹو صاحب کی سیاسی پارٹی، ووٹ بینک اور سیاسی کارکن تھے جبکہ لیاقت علی خان کو ان کی شہادت کے بعد ان کی پارٹی نے کوئی اہمیت نہ دی۔ لیاقت علی خان کے صاحبزادگان چھوٹے تھے، اگر وہ جوان ہوکر سیاست میں قدم رکھتے اور اپنے باپ کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو انہیں مایوسی ہوتی۔ اس کے برعکس طویل جلا وطنی اور پابندیوں کے باوجود بینظیر کو اپنے باپ کی پارٹی، کارکن اور ووٹ بینک ورثے میں ملے اور ان کے دوبار وزیراعظم بننے کا ذریعہ بنے۔ اس پسِ منظر میں اگر آپ حکومتی وزراء اور سیاسی عہدیداران کے تبصرے پڑھیں تو وہ سیاسی بلوغت سے تہی لگتے ہیں، جن صاحبانِ مناصب کو یہ اصرار ہے کہ میاں نواز شریف واپس نہیں آئیں گے، انہیں فرصت کے چند لمحات نکال کر سوچنا چاہئے کہ میاں صاحب کی سیاسی زندگی 37برسوں پر محیط ہے، انہوں نے سیاست کے میدان میں محنت اور سرمایہ کاری کی ہے، گمنامی سے نکل کر ناموری کے لبِ بام پہ آئے ہیں، ان کی پارٹی، ووٹ بینک اور وفادار کارکن ان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں، مریم اسی وراثت کی امین ہے اس لئے شفایاب ہو کر وہ ہر صورت واپس آئیں گے اور محض جیل کے ڈر سے زندگی بھر کا سرمایہ ضائع نہیں کریں گے۔ سیاستدان کے لئے جیل عارضی شے ہوتی ہے جس کی دیواریں گرتے دیر نہیں لگتی۔ پسند ناپسند سے بالاتر یہ میری ذاتی رائے ہے جس سے آپ کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔

تحریر: ڈاکٹر صفدر محمود بڑے بڑے دانشوروں کی تحریروں سے گزرتے اور بڑے بڑے میڈیا ماہرین کی گفتگو سنتے ہوئے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے اور اختلاف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اخبار یا ٹیلی وژن چینل سے وابستہ حضرات کی اکثریت سے مطالعے، تحقیق اور غور و فکر کی توقع رکھنا دل شکنی کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ ...

Read More »

وہ سوتیلا ہے

وہ سوتیلا ہے

تحریر: سہیل وڑائچ جو سگّا تھا اس کا درد سیدھا سینے میں محسوس ہوتا تھا، اُس کا بلڈ پریشر بڑھتا تھا تو جذبات بھڑکتے تھے، پلیٹ لیٹس گرتے تھے تو دل کی دھڑکن کمزور پڑ جاتی تھی، اُس کی طبیعت بگڑتی تھی تو شہر کا مزاج بگڑ جاتا تھا، اُنہی جذبات، احساسات، بھائی بندی اور قرابت داری نے کام دکھایا ...

Read More »

لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

گزشتہ ہفتے 15 سے 17 نومبر تک پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں منعقد ہونے والے ’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘ نے اتنی شہرت حاصل نہیں کی، جتنی شہرت اسی میلے کے اختتام پر انقلابی گیت گانے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک ہجوم کو ملی۔ فیض میلے میں تین دن کے دوران جہاں آرٹ، ادب، فلم، ڈرامہ، شاعری، سیاست اور سماجی مسائل پر ...

Read More »