بلاگ/ کالم

تقریروں سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتا

تقریروں سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھر سکتا

تحریر: حامد میر کوئی مانے یا نہ مانے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کو صرف مظلومینِ کشمیر نے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ستم زدہ مسلمانوں نے خوب سراہا ہے۔ عمران خان سے کچھ دیر پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی جنرل اسمبلی میں تقریر کی۔ مودی کا لہجہ انتہائی بناوٹی ...

Read More »

تقریر کا جذبہ گورننس میں بھی نظر آنا چاہیے

تحریر: حسن نثار سینئر تجزیہ کار حسن نثار نے کہا ہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی سے خطاب میں اسکرپٹ سے باہر نہیں نکلے،وزیراعظم کی تقریر میں پورا ٹیم ورک دکھائی دیا،اب یہ ٹیم ورک، ہوم ورک اور محنت گورننس میں بھی نظر آنی چاہئے۔ عمران خان کی تقریر کتنی موثر تھی اس کیلئے ہندوستان کا ردعمل دیکھیں ان کی ...

Read More »

حکومت مکافات عمل کا شکار ہونے جارہی ہے؟

لگتا ہے کہ مکافات عمل کا قانون روبہ عمل ہونے جارہا ہے, عمران خان صاحب جن شاخوں پر بیٹھے ہیں انہی کو کاٹنے لگے ہیں۔ وہ اس جسٹس(ر) سردار رضا کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں، جن کی زیرنگرانی انتخابات میں ان کو وزیراعظم بنوایا گیا۔ ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے جسٹس ارشاد حسن خان کے الیکشن کمیشن جیسا کردار ادا کیا لیکن اب چونکہ عمران خان صاحب کی حکومت اس الیکشن کمیشن کے سربراہ پر حملہ آور ہورہی ہے تو لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی ان کے لئے افتخار چوہدری ٖثابت ہوں گے ۔ عمران خان صاحب کی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اسے عدالتوں کا خوف ہے ، نیب کا ، اپوزیشن کا اور نہ میڈیا کا۔ اس لئے وہ اس ڈھٹائی کے ساتھ غیرقانونی اقدامات اٹھارہی ہے کہ جس کا تصور بھی ماضی کی حکومتیں نہیں کرسکتی تھیں۔ مثلاً الیکشن کمیشن میں دو ممبران کی تقرری کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آئین میں چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا طریق کار آئین کے آرٹیکل 213میں واضح انداز میں لکھا گیا ہے جس کی رو سے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت اور باہمی رضامندی سے اس کا تقرر ہوگا اور اگر ان میں اتفاق نہ ہوسکے تو معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو رولز کے مطابق دو تہائی اکثریت کے ساتھ ممبران کا تقرر کرے گی ۔ اس کے بعد رولز میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت برائے نام نہیں بلکہ حقیقی (Meaningfull consultation) ہوگی۔ پھر آئین کے آرٹیکل 218 میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کے لئے بھی بعینہ وہی طریق کار اختیار کیا جائے گا جو چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے اختیار کیا جاتا ہےلیکن پی ٹی آئی حکومت نے وزیر قانون فروغ نسیم کے ایما پر سندھ اور بلوچستان کے ممبران کے نام لیڈر آف دی اپوزیشن کے ساتھ کسی مشاورت کے بغیر صدر مملکت کو بھجوا دئیے ۔ نہ تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہوئی اور نہ پارلیمانی کمیٹی حتمی فیصلے تک پہنچی ۔تماشہ یہ ہے کہ ان ممبران کے نام پی ٹی آئی نے بھی تجویز نہیں کئے بلکہ فروغ نسیم نے اپنی طرف سے ڈھونڈ نکالے ہیں یا پھر شاید کسی نے انہیں یہ نام تھمادئیے ہیں ۔ اس سے بڑا تماشہ یہ ہوا کہ صدر مملکت عارف علوی نے بھی اس آئینی منصب کے لئے غیرآئینی طور پر مقرر کئے گئے ان دو افراد کے بطورممبران الیکشن کمیشن تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔ اگلے دن جب وہ دونوں ممبران چارج لینے کے لئے الیکشن کمیشن آئے تو چیف الیکشن کمشنر نے پہلی مرتبہ جرات اور قانون پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں کو حلف دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے یہ قانونی اور آئینی موقف اختیار کیا کہ یہ آئینی منصب ہے اور اس لئے صدر، وزیراعظم اور جج صاحبان کی طرح ان کو حلف دیا جاتا ہے چنانچہ وہ غیرآئینی طریقے سے مقرر کئے گئے ممبران کو آئینی منصب کے لئے حلف نہیں دے سکتے ۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی کہ ان ممبران کا تقرر آئینی طریقے سے نہیں ہوا ۔یوں الیکشن کمیشن جیسے نامکمل تھا ویسے نامکمل رہ گیا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزارت قانون ان دو ممبران کے تقرر کے لئے دوبارہ آئینی طریقہ کار اختیار کرتی لیکن چونکہ یہ الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان صاحب اور ان کی حکومت کے خلاف پہلا فیصلہ تھا اس لئے انہیں اور ان کے وزیر قانون کوسخت ناگوار گزرا۔ چنانچہ پہلے تو وزیر قانون کے ایما پرچیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے کا فیصلہ ہوا لیکن بعد میں جب دیگر آئینی ماہرین نے اس کے مختلف قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا تو اس ارادے کو ترک کردیا گیا البتہ اب حکومت نے پیچھے رہ کر وزیرقانون فروغ نسیم کے زیر اثر وکلا کے ایک گروپ کے ذریعے اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ نہیں دیکھا گیا کہ اگر سپریم کورٹ سے حکومت کے خلاف اور چیف الیکشن کمشنر کے حق میں فیصلہ آیا تو پھر کیا ہوگا۔ سپریم کورٹ میں وکلا کا موقف ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر نے غیرآئینی کام کیا لیکن اگر فیصلہ ان کے حق میں آیا تو اسکا یہ مطلب ہوگا کہ وزیراعظم اور صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ۔ یوں فیصلہ حکومت کیخلاف آجانے کی صورت میں صدر اور وزیراعظم کیخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے کیونکہ اس صورت میں ان کا یہ اقدام Subversion of the constitution کے زمرے میں آجائیگا کیونکہ آرٹیکل چھ کا اطلاق صرف آئین کو توڑنے یا معطل کرنے کی صورت میں نہیں بلکہ اسکے غلط اطلاق یعنی Subversion کی صورت میں بھی کیا جاتا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 6کے الفاظ ہیں کہ : Any person who abrogates or subverts or suspends or holds in abeyance, or attempts or conspires to abrogate or subvert or suspend or hold in abeyance, the Constitution by use of force or show of force or by any other unconstitutional means shall be guilty of high treason. بیرسٹر فروغ نسیم اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اور وزیراعظم اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس رویے سے الیکشن کمیشن سے متعلق آئینی بحران بھی جنم لے سکتا ہے ۔ وہ یوں کہ اگر وزیراعظم ممبران سے متعلق لیڈر آف دی اپوزیشن سے ملنے کے لئے تیار نہیں تو پھر چیف الیکشن کمشنر پر کیسے ان دونوں کی مشاورت ممکن ہوگی ۔ دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر کی مدت چند ماہ بعد پوری ہونے کو ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی مدت پوری ہوجائے گی اور نئے کا تقرر نہیں ہوا ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟ اس صورت میں اگر تو سپریم کورٹ نے کوئی حل نکال دیا یا موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو اگلے چیف کے تقرر تک کام کرنے کا اختیار دے دیا تو الگ بات ،نہیں تو الیکشن کمیشن کام نہیں کرسکے گا۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایسے عالم میں ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کاپارٹی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں کئی سال سے زیرسماعت ہے اور اگر اس کیس کا اسی طرح میرٹ پر فیصلہ دیا گیا جس طرح کےاپوزیشن کے کیسز کا کیا جاتا ہے تو قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت فارغ ہوجائے گی۔ تبھی تو میں کہتا ہوں کہ فروغ نسیم اس حکومت کو فارغ تو کرسکتے ہیں لیکن اسے کوئی فروغ نہیں دے سکتے۔

تحریر: سلیم صافی لگتا ہے کہ مکافات عمل کا قانون روبہ عمل ہونے جارہا ہے, عمران خان صاحب جن شاخوں پر بیٹھے ہیں انہی کو کاٹنے لگے ہیں۔  وہ اس جسٹس(ر) سردار رضا کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں، جن کی زیرنگرانی انتخابات میں ان کو وزیراعظم بنوایا گیا۔ ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے ...

Read More »

عمران خان سے ملاقات کرنے والے ارب پتی یہودی کون ہے؟

عمران خان سے نیویارک میں ملاقات کرنے والے ارب پتی یہودی جارج سوروس کون ہیں؟

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نیویارک میں قیام کے دوران انھوں نے کئی اہم بین الاقوامی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان میں سے ایک نام ایسے ارب پتی یہودی کا ہے جو دنیا بھر میں فلاحی کاموں کے لیے 32 ارب ڈالر عطیہ کرنے کے باوجود اپنے ملک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ایک ناپسندیدہ شخص تصور کیے ...

Read More »

وزیرِاعظم کی حد سے بڑھتی رجائیت پسندی اور فکری مغالطے

وزیرِاعظم کی حد سے بڑھتی رجائیت پسندی اور فکری مغالطے

تحریر:عمران یعقوب وزیرِاعظم عمران خان افغانستان سمیت دنیا کے اہم ملکوں کی تاریخ پر بے تکان بات کرتے ہیں اور تاریخ کے مطالعے پر زور دیتے ہیں، اس کے ساتھ وہ ہر مشکل ترین معاملے پر حیران کر دینے کی حد تک رجائیت پسند ہیں۔ وزیراعظم کا مطالعہ اور رجائیت پسندی کئی بار ان کی اپنی جماعت کے لیے امتحان ...

Read More »

دو تین ماہ میں حالات نہ سدھرے تو تبدیلی

cabinet meeting ik meet cabinet

موجودہ حالات پر ہوشیار خان اور پریشان خان میں ایک دلچسپ مکالمہ ہوا جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔ پریشان خان: حالات بہتر نہیں ہو رہے، معیشت ٹھیک نہیں ہو رہی، طرز حکمرانی میں تبدیلی نہیں آرہی، کیا ایسے ہی چلتا رہے گا؟ ہوشیار خان: اجتماعی غلطی ہو گئی۔ اب ہم بند کمرے سے کیسے نکلیں۔ پریشان خان: غلطی کیسے ...

Read More »

عمران یواین میں لکھی تقریر پڑھیں

عمران یواین میں لکھی تقریر پڑھیں، پارلیمنٹ یاکنٹینر نہ سمجھیں،حسن نثار

تحریر:حسن نثار سینئر تجزیہ کار حسن نثار نے کہا ہے کہ عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لکھی ہوئی تقریر سے آگے نہ جائے، آگے پیچھے ہوا تو بری طرح سلپ ہوجانے کا خطرہ ہے، اقوام متحدہ پاکستان کی اسمبلی اور کنٹینر سے تھوڑی مختلف جگہ ہے اس لئے احتیاط کرے،ملک کا ہر شہری جوابدہ ہے کہ اس کے ...

Read More »

جوگرجتے ہیں وہ برستے نہیں

جوگرجتے ہیں وہ برستے نہیں

تحریر: حامد میر ناکامی یا غلطی کو تسلیم کرنے والے لوگ بہادر کہلاتے ہیں۔ ناکامی پر بہانے تراشنے اور ناکامی کو چھپانے کیلئے جھوٹ بولنے والے لوگ صرف بزدل نہیں بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم سے بھی ایک بہت بڑی ناکامی کو چھپایا جا رہا ہے۔ جو بھی اس ناکامی کی وجہ جاننے کیلئے سوال اٹھائے گا ...

Read More »

20ہزار روپے!

20ہزار روپے!

تحریر: ارشاد بھٹی ایک طرف کمشنر لاڑکانہ کا دفتر، دوسری طرف لاڑکانہ اسپتال، درمیا ن میں سڑک پر تڑپتے 10سالہ بیٹے میر حسن کو گود میں لئے بیٹھی بے بس ماں، وہ میر حسن جسے پاگل کتے نے کاٹا، جسے سلطان کوٹ، شکارپور سرکاری اسپتالوں کے بعد اب لاڑکانہ سرکاری اسپتال میں بھی کتا کاٹنے کی ویکسین نہ ملی، جسے ...

Read More »

وارث کی تلاش میں

پچھلے ہفتے دو ایسی چیزیں ہوئی ہیں جن کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ منگل کے روز کابینہ کا اجلاس ہوا جس کی دستاویزی تفصیلات میرے سامنے پڑی ہیں۔ اجلاس شروع ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں شدید تشویش ہے کہ ان کے وزیروں کے خلاف جھوٹی خبریں چھاپی جارہی ہیں ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا: الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف مواد چھپ رہا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا: پیمرا بیکار ادارہ بن چکا ہے ‘ روزانہ وزیروں کے خلاف خبریں چھپ رہی‘ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ مشیروں‘ وزیروں کے خلاف خبر چھاپ دیتا ہے ۔ وزیراعظم جب کابینہ اجلاس میں صحافیوں اور صحافت پر ناراضی کا اظہار فرما رہے تھے تو لوہے کو گرم دیکھ کر وہاں بیٹھے وزیروں نے‘ جن میں سے اکثر کے سکینڈلز سامنے آچکے ہیں‘ بولے: وقت آگیا ہے کہ میڈیا ٹریبونل بنائے جائیں ‘جو کسی بھی وزیر یا اہم عہدے پر فائز لوگوں کی شکایت پر فوری کارروائی کریں اور اینکرز کو سزائیں اور جرمانے ہوں۔ ایک اور وزیر نے فرمایا کہ وہ جب وزیراطلاعات تھے تو انہوں نے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا ڈرافٹ تیار کیا تھا‘ جس نے سوشل میڈیا سے ٹی وی اخبارات اور چینلز تک سب کو ریگولیٹ کرکے سزائیں دینی تھیں۔ ڈرافٹ تیار ہے ‘اگر کہیں تو پیش کر کے منظوری لے لی جائے۔ ایک اور وزیر نے فرمایا: جب یہ فیصلہ کیاجارہا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے سزائیں دی جائیں تو پھر سوشل میڈیا کے لے بھی سخت سزائیں تجویز کر کے نئے قوانین لائے جائیں ‘کیونکہ وہاں بھی‘ بقول ان کے بہت سی جھوٹی خبریں چلتی ہیں اورویڈیوز بھی اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ بحث کا رخ پھر پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف مڑ گیا۔ وزیراعظم کو یہ خیال پسند آیا‘ سب اختیارات ایک ہی اتھارٹی کو دے کر ٹی وی چینلز‘ سوشل میڈیا‘ اخبارات سب کو میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے سزائیں دی جائیں ۔اس پر فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر پیمرا آرڈیننس 2002ء میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور نئے میڈیا ٹربیونلز بنائے جائیں گے جو وزیروں کی طرف سے فائل کی گئی شکایتوں پر فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ٹی وی چینلزاور سوشل میڈیا کو‘ صحافیوں اور اینکرز کو سزائیں سنا سکیں گے۔ وزیرقانون فروغ نسیم کو کہا گیا کہ وہ نئے قانون پر کام کریں اور کابینہ اجلاس میں ترامیم پیش کریں جن کی منظوری دے کر انہیں آرڈ یننس یا ایکٹ کے ذریعے پورے ملک پر نافذ کر دیا جائے اور میڈیا ٹریبونلز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اور سنیں ‘ جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جی آئی ڈی سی کیس کی سماعت کرنی تھی۔ ہم صحافی بھی وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ حکومت کو وہ آرڈیننس واپس لینا پڑا تھا جس میں تین سو ارب روپے کا ٹیکس کاروباری سیٹھوں کو معاف کیا جا رہا تھا ۔ حکومت پر الزام لگ رہا تھا کہ وہ اپنے کچھ قریبی دوستوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ کراچی کی ایک پاور کمپنی ‘ جس نے اسی ارب روپے کے قریب ٹیکس دبایا ہوا تھا‘ اسے فائدہ دینا بھی مقصود تھا‘ کیونکہ وہ پارٹی تگڑا چندہ دیتی تھی ۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ میڈیا بلیک میلنگ پر اتر آیا ہے اور اب انہیں اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کررہا ہے۔ وزیراعظم نے آرڈیننس واپس لینے کا اعلان تو کر دیا ‘ لیکن ساتھ میں یہ وارننگ جاری کر دی کہ حکومت 450 ارب روپے کا مقدمہ ہار بھی سکتی ہے۔ یہ پڑھ کر ہم سب حیران رہ گئے کہ وزیراعظم کو ان کی لیگل ٹیم اور انرجی مشیروں نے پوری طرح بریف نہیں کیاورنہ یہ کیس وہ کیسے ہار سکتے ہیں؟ اگر ہارنا ہوتا تو یہ مقدمہ تو برسوں سے عدالت میں پڑا تھا‘ کب کے ہار چکے ہوتے۔ اگر ان کمپنیوں کو یقین ہوتا کہ ان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے اور وہ جیت سکتی ہیں تو پھر کاروباری لوگ کیسے حکومت کو سوا دو سو ارب روپے دینے پر تیار ہوجاتے؟ اگر وہ کاروباری کمپنیاں حکومت کو سوا دو سو ارب روپے کا ٹیکس دینے کو تیار ہوگئی تھیں تو اس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ انہیں یہ خطرہ تھا کہ وہ عدالت میں یہ مقدمہ ہار سکتی ہیں‘ لہٰذا انہیں ساڑھے چار سو ارب روپے مع سود واپس کرنا پڑنے تھے۔ عدالت میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سپریم کورٹ کی راہداری میں سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی یہ بات پھیل چکی تھی کہ آج اس اہم کیس کی سماعت نہیں ہوگی۔ حیرانی سے اپنے رپورٹر صبیح الحسنین سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک پارٹی کے وکیل خالد انور کے سٹاف نے پہلے ہی عدالت میں درخواست دے دی ہے کہ وہ سماعت نہ کریں‘ تاریخ دے دیں‘ کیونکہ وکیل صاحب کو اچانک بلڈ پریشر ہوگیا ہے ‘لہٰذا وہ پیش نہیں ہوسکتے۔ یوں پانچ منٹ کی کارروائی کے بعد سماعت بائیس اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت سے باہر نکلے تو اٹارنی جنرل انور منصور سے ملاقات ہوگئی ۔ میں نے ان سے پوچھ لیا‘ سرجی یہ تو بتائیں کہ حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا‘ وہ پاکستان کے عوام سے اکٹھے کیے گئے ساڑھے چار سو ارب روپے میں سے پچاس فیصد اور سود معاف کررہی تھی‘ کیا وزیراعظم عمران خان یا صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے یہ آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے اپنے اٹارنی جنرل سے مشورہ کیا تھا ؟ انورمنصور نے غور سے میری طرف دیکھا اور بولے: نہیں مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ۔ ایک لمحے کے لیے میں سُن ہوکر رہ گیا کہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت ‘جو بار بار کہہ رہی ہوکہ عدالتوں نے سٹے دے رکھے تھے‘ لہٰذا وہ ڈیل کرتے ہوئے ساڑھے چار سو ارب روپے کا پچاس فیصد معاف کررہی ہے‘ نے اتنا تکلف تک نہیں کیا کہ وہ اپنے اٹارنی جنرل سے ہی پوچھ لیتی کہ بتائیں اس کیس میں کتنی جان ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ابھی ہم بم شیل سے سنبھل ہی رہے تھے کہ محمد مالک نے اٹارنی جنرل سے پوچھا لیا :سر یہ بتائیں حکومت کے مقدمہ جیتنے کے کتنے چانسز ہیں؟ انور منصور بولے: دس میں سے چھ سے لے کر سات تک امکانات ہیں۔مطلب ساٹھ فیصد سے ستر فیصد تک امکان تھا کہ حکومت کو ساڑھے چار سو ارب روپے واپس مل جائیں ۔اس پر میں نے انور منصور سے پوچھا: سرجی یہ تو بتائیں‘ یہ ساڑھے چار سو ارب روپے ٹیکس کی رقم کا فگر کہاں سے آیا ہے؟ ان کا کہنا تھا :یہ وہ بلنگ ہے جو کمپنیوں نے خود دکھائی ہے کہ ہم نے لوگوں کو ساڑھے چار سو ارب روپے کی بلنگ کی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ وہ کمپنیاں ٹیکس اکٹھا کرچکی تھیں۔ انہوں نے مرضی سے وہ فگر خود ہی دیا اور اب ٹیکس دینے کی بجائے حکومت انہیں پچاس فیصد معاف کرنے پر تل گئی تھی۔ہم سر پکڑے وہیں کھڑے رہ گئے کہ یہ کیا کیا انکشافات ہورہے ہیں۔ ابھی ہم اس حیرانی سے نکل ہی رہے تھے کہ پتا چلا حکومت پاکستان کو تقریباً پچاس لاکھ ڈالرز رشوت کے وہ ثبوت ملے ہیں جو پیپلز پارٹی دور میں ترکی کے کرائے کے جہاز کے مالکان نے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو دی تھی ۔ ان چھ لوگوں کی منی ٹریل بھی مل گئی تھی کہ کس کمپنی نے کس کو پیسے دیے اور وہ کہاں سے کس کے اکاؤنٹ میں گئے ۔ مطلب یہ کہ پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے غیرملکی کمپنیوں کو پاکستانی لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے کی جو اجازت دی تھی‘ اس کے لیے لاکھوں ڈالرز کا کمیشن کھایا گیا تھا۔ خاصی دیر سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ پچھلی حکومت نے ایک رینٹل پاور میں پچاس لاکھ ڈالرز رشوت لی تو اب موجودہ حکومت کے وزیروں کے سکینڈ ل آنا شروع ہوگئے ہیں‘ یہی وزیر اب کہتے ہیں کہ فوری طور پر میڈیا کے لیے سمری ٹرائل ٹائپ ٹریبونل بنا کر سکینڈل بریک کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں۔ یہ ملک پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں‘ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں لیکن جوابدہی کے لیے تیار نہیں۔ بہرحال میڈیا تیار رہے‘ جنرل مشرف دور کی واپسی ہورہی ہے‘ جب حکومت کے خلاف خبریں نہیں چھپ سکتی تھیں ۔ اگر چھاپتے تھے تو یا چینل بند ہوتے یا صحافی نوکریوں سے فارغ ہو جاتے تھے۔ سوچا تھا نئے لوگ آئیں گے‘ کچھ نئی شروعات ہوں گی‘ کچھ نیا ہوگا ‘ مگر منگل کے روز کابینہ اجلاس کی دستاویزی کارروائی پڑھنے کے بعد دل بجھ سا گیا ہے۔ یہ سب بادشاہ ہیں ‘یہ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں عوام کے لیے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے وزیر غلط کر ہی نہیں کرسکتے۔ عوام ہی غلطیاں کرتے ہیں۔ سب قانون اور سزائیں بھی عوام ہی کے لیے ہیں ۔ پتا چلا وہیں جا پہنچے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ کیا واقعی اس ملک کا کوئی وارث نہیں رہا؟

تحریر: رؤف کلاسرا پچھلے ہفتے دو ایسی چیزیں ہوئی ہیں جن کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس ملک کا کوئی وارث ہے؟ منگل کے روز کابینہ کا اجلاس ہوا جس کی دستاویزی تفصیلات میرے سامنے پڑی ہیں۔ اجلاس شروع ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں شدید تشویش ہے کہ ان کے وزیروں کے خلاف ...

Read More »