تحریر: عرفان اطہر قاضی
کشمیریوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ پاکستانی عوام مایوس ہیں۔ ہمارے حکمران ٹرمپ کی جادو کی جپھی سے پُر سکون اور پُرامید ایک سحر میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ کوئی ان الفاظ پر توجہ دینے کو تیار نہیں کہ مودی کیا کہہ رہا ہے اور امریکہ کی سوچ کیا ہے اور یہودی لابی کون کون سے نئے جال بُن رہی ہے۔ عربوں کے مفادات بھارت کے ساتھ کیوں جُڑے ہیں۔
مودی کے یہ الفاظ یاد رکھئے کہ آرٹیکل 370میں کشمیری خواتین کو (حقوق کے نام پر) آزادی دے دی گئی ہے۔ اب وہ جس سے چاہیں، جہاں چاہیں، جس طرح چاہیں شادی کرنے کا حق رکھتی ہیں اور ساتھ ہی وہ یہ نوید بھی سنا رہا ہے کہ اب ہر کسی کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدوفروخت کا حق حاصل ہوگا اور ساتھ ہی وہ عربوں کو دعوت بھی دے رہا ہے کہ وہ آئیں اور کشمیر میں سرمایہ کاری کریں، انہیں آزادانہ کاروبار کا حق دیا جا سکتا ہے۔
دبے لفظوں میں تو وہ یہ کہہ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی ’’جدید تعمیر نو‘‘ میں حصہ لیں۔ کئی مسلم ملکوں نے اپنی اسلامی معاشرتی روایات، اقدار کا جو جنازہ نکالا شاید مغربی تہذیب بھی اس پر شرمندہ ہو۔ آج دنیا میں معاشروں کی تباہی میزائلوں سے نہیں عوام کے جذبات کو کچل کر کی جارہی ہے۔ منصوبہ سازوں نے کشمیر پر قبضے کا کیا خوب ڈھنگ نکالا ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ میں عرصہ سے ایک پختہ سوچ کے گرد گھوم رہا ہوں کہ دشمن خصوصاً امریکہ، اسرائیل، بھارت گٹھ جوڑ دنیا پر قبضے کی آخری جنگ مقبوضہ کشمیر میں لڑ رہا ہے۔
اب یہ ٹرائیکا کے بجائے مسلمان ممالک کی شمولیت سے ایک ’’چوکور‘‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ گٹھ جوڑ دنیا میں سیاحت کے فروغ کے نام پر کشمیر کی جنت نظیر وادی میں ایک نیا کھیل رچا رہا ہے۔ دنیا کو اس حسین وادی کی سیروسیاحت کے نام پر رنگین خواب دکھائے جائیں گے اور کھلی آزادیاں دی جائیں گی اور ایک نئی سحر انگیزی پیدا کی جائے گی۔
اس ’’چکور‘‘ کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں امریکہ کا دیرینہ خواب پورا کیا جائے گا اور وہاں امریکی فوجی اڈے قائم کئے جائیں گے۔ سرکس کے جوکر کی طرح نظر آنے والے ٹرمپ بہادر وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔ وہ دنیا کو جنگوں سے بالا فتح کرنے کے گُر جانتے ہیں۔
ذرا سوچئے! افغانستان میں بھارت کی آڑ میں امریکہ طالبان سے نیا گٹھ جوڑ کرلے اور مقبوضہ کشمیر میں یہ چکور آبیٹھے تو پھر اس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ یہ جو بڑے بڑے ایوانوں میں ذہین فطین لوگ بیٹھے ہیں کیا انہیں مستقبل کی یہ تصویر نظر نہیں آتی؟ کیا وہ یہ سب نہیں دیکھ رہے کہ 77سال میں قدم بہ قدم ہماری پسپائی، دوغلا پن، وقتی و ذاتی مفادات نے آج ہمیں کس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔
ٹویٹ سرکار کی مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری دیکھتے ہیں تو حیرت کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے کہ بھوکے ننگے، بے روزگار عوام کو صبح سویرے نہار منہ چند ٹویٹس کھانے کو ملتے ہیں۔ پیغام صرف یہ دیا جارہا ہے کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں کی مظلومیت کا ماتم دیکھتے ہیں تو اپنا گریبان چاک نظر آتا ہے۔ یہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا ہی ہے جو فی سبیل اللہ جہاد کشمیر تن تنہا لڑ رہا ہے جبکہ سرکار کی حالت یہ ہے کہ اسی کا گلا گھونٹ رہی ہے۔
’’قومی بچت اسکیم‘‘ کے دعوے داروں کو تو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ 30اگست کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کم از کم میڈیا میں کوئی باقاعدہ اشتہاری مہم ہی چلا دیتے۔ اس مہم سے بظاہر موت کے دہانے پر کھڑے میڈیا کا کوئی بہت زیادہ مالی فائدہ تو نہیں ہونا تھا کم از کم دنیا کو یکجہتی اور قومی جذبے کا پیغام تو دیا جا سکتا تھا۔ ایسی بے حسی تو پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔
دوسری طرف اگر دشمن کا موازنہ کریں تو پھر مودی کی ایک خلیجی ملک کی حالیہ یاترا کے موقع پر اُس کے تمام اخبارات کا مطالعہ فرما لیں۔ پچاس پچاس، سو سو صفحات پر مشتمل اخبارات کے صفحہ اول سے آخر تک مودی کی تصاویر اور ’’سیاہ کارناموں‘‘ سے عبارت اشتہارات کی بھرمار نظر آئے گی۔ ٹویٹ سرکار کو پتا نہیں کیوں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان کے جغرافیائی دفاع کے ساتھ ساتھ نظریاتی بقا بھی ضروری ہے اور یہ دفاع فورسز کے ساتھ ساتھ میڈیا فورس سے ہی ممکن ہے۔ خالی جیب نہ فورسز لڑ سکتی ہیں اور نہ ہی میڈیا۔ باوقار قوموں کے حکمران باوقار ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے چین زندہ مثال ہے۔ مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر تنازع ہمارا مگر چین نے اپنے اور ہمارے مفادات کا دو ٹوک ردعمل دیتے ہوئے اپنے وزیر خارجہ کا دورئہ بھارت منسوخ کر دیا ہے اور ہم چند ٹکوں کے مفاد پر پورے کا پورا کشمیر قربان کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ سرکار کاکوئی ایک بھی ایسا فیصلہ بتائیں جو اس بات کی واضح علامت بنا ہو کہ ہم بھارتی اقدامات کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
ایک ڈرامہ رچایا جارہا ہے کبھی ’’شاہ صاحب‘‘ خلیجی ممالک کی پالیسی پر مایوسی ظاہر کرتے ہیں تو اگلے ہی دن انہیں بہترین دوست قرار دے دیتے ہیں۔ پھر وضاحتیں فرمانے لگتے ہیں۔ سرکار نے میڈیا سمیت پوری قوم کو گھما کر رکھ دیا ہے کہ آخر ہمارا اصل بیانیہ ہے کیا؟ ٹھیک ہے آپ اپوزیشن کا احتساب کریں۔ میڈیا کا کھل کر کباڑہ کریں۔ سوشل میڈیا پر گالیاں دیں لیکن اپنی حتمی سمت کا تعین بھی تو کرلیں کہ آخر ہم کھڑے کہاں ہیں اور ہماری منزل کیا ہے۔ عمران سرکار سے انتہائی معذرت کے ساتھ میرا ایک سوال ہے کہ کیا حکومتیں، تحریکیں اس طرح چلتی ہیں، قوموں کو آزادی اس طرح ملتی ہے؟ ذرا سوچئے! غور کیجئے، قوم آپ کے فیصلہ کی منتظر ہے۔