تحریر: حامد میر
کیا کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ حل ہو سکتا ہے؟ کشمیر پر جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور کئی دفعہ مذاکرات بھی، لیکن یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ آج ایک دفعہ پھر پوری دنیا بھارت اور پاکستان پر زور دے رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ پاکستان تو مذاکرات پر آمادہ ہے لیکن بھارت کا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بڑے تکبر کیساتھ اعلان کر رہا ہے کہ ہاں مذاکرات ہونگے لیکن آزاد کشمیر پر ہونگے۔ آج کے دور میں عالمی تنازعات کو حل کرنے کا بہترین راستہ مذاکرات کو سمجھا جاتا ہے لیکن دوحہ میں سپر پاور امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونیوالے مذاکرات نے دنیا بھر کی محکوم اقوام کو یہ سبق دیا ہے کہ مذاکرات اُسی وقت آگے بڑھتے ہیں جب کمزور کے ہاتھ میں بھی بندوق ہو اور وہ مرنے مارنے پر اتر آئے۔ امریکہ اور اس کے حواری کئی سال تک طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے اور آج ان دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کے نو رائونڈ مکمل کئے جا چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا بھی افغانستان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ افغانیوں اور برطانوی فوج کی پہلی لڑائی میں راجہ گلاب سنگھ نے برطانیہ کی مدد کی۔ پھر جب سکھوں اور برطانوی فوج کی 1845ء میں لڑائی ہوئی تو راجہ گلاب سنگھ نے سکھوں کے ساتھ غداری کی اور اسکے انعام میں اگلے ہی سال برطانوی گورنر جنرل ہیری ہارڈنگز نے معاہدۂ امرتسر کے ذریعہ ریاست جموں و کشمیر محض 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض گلاب سنگھ کو فروخت کر دی۔ گلاب سنگھ نے سرینگر پر قبضے کیلئے جموں سے فوج بھیجی تو شدید مزاحمت ہوئی جس پر ہارڈنگز نے اس کی مدد کی۔ یہ کشمیر فروش انگریز گورنر جنرل بعد ازاں برطانوی فوج کا کمانڈر انچیف اور فیلڈ مارشل بنا۔ 1947ء میں ایک اور انگریز گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن نے گلاب سنگھ کے خاندان کیساتھ ملی بھگت کر کے ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق کروا دیا۔ اس الحاق کیخلاف مسلح بغاوت ہوئی اور بھارت و پاکستان میں جنگ شروع ہو گئی۔ جب بھارت کو کشمیر ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو وہ بھاگم بھاگ اقوام متحدہ پہنچا اور سیز فائر کرا دیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ پر اعتماد کرکے کشمیر کی آزادی کا یہ پہلا موقع کھو دیا۔
اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کی قراردادیں منظور کیں جنکے تحت کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعہ اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق دیا گیا لیکن جب بھارت کا جموں و کشمیر پر فوجی قبضہ مستحکم ہو گیا تو اس نے ان قراردادوں کو فراموش کر دیا۔ اس دوران سلامتی کونسل نے آسٹریلیا کے ایک جج اوون ڈکسن کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث مقرر کیا۔ ڈکسن نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک سیدھا سادہ ریفرنڈم کرانے کے بجائے بڑا پیچیدہ منصوبہ پیش کر دیا جو ڈکسن پلان کہلایا۔ ڈکسن نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کو چار زونز میں تقسیم کر دیا جائے۔ کشمیر، جموں، لداخ اور آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات۔ پھر ان چاروں زونز میں ضلع بہ ضلع رائے شماری کرائی جائے۔ پاکستان نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا کیونکہ اسکا مقصد جموں اور لداخ کو بھارت کے حوالے کرنا نظر آتا تھا۔ بعد ازاں ڈکسن نے چناب فارمولا پیش کیا جسکے تحت دریائے چناب کو بنیاد بنا کر تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ کپواڑہ، سرینگر، بارہ مولا، اسلام آباد، پلوامہ، بڈگام، پونچھ اور راجوری پاکستان میں آ جائیں اور جموں بھارت میں چلا جائے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ 1956ء میں حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم بنے تو امریکی صدر آئزن ہاور نے اُن سے پاکستان میں ایک فوجی اڈہ مانگا۔ سہروردی نے شرط رکھی کہ مسئلہ کشمیر حل کرا دیا جائے تو پاکستان پشاور کے قریب امریکہ کو فوجی اڈہ دیدے گا۔ امریکہ کی کوشش سے جنوری 1957ء میں مسئلہ کشمیر ایک دفعہ پھر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آ گیا لیکن اکتوبر 1957ء میں میجر جنرل اسکندر مرزا نے اُن سے زبردستی استعفیٰ لے لیا۔ ایوب خان کے ایک قریبی ساتھی مرید حسین نے منیر احمد منیر سے انٹرویو میں بتایا کہ استعفیٰ کے بعد سہروردی نے کہا کہ پرائم منسٹر شپ تو آنی جانی چیز ہے لیکن کشمیر ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے گیا۔ (اَن کہی سیاست صفحہ22)۔
تیسری دفعہ کشمیر کی آزادی کا موقع 1962ء میں آیا جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی۔ چین نے ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ بھارتی فوج چین کی سرحد پر اکٹھی ہو گئی ہے، کشمیر خالی ہے اسے آزاد کرا لو لیکن امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میکملن نے ایوب خان کو کشمیر پر حملے سے باز رکھا۔ امریکی سی آئی اے کے ایک سابق افسر بروس ریڈل نے اپنی کتاب JFK’s Forgotten Crisisمیں پوری تفصیل بیان کی ہے کہ کیسے پاکستان کو کشمیر پر حملے سے روکا گیا۔ اس دوران 22دسمبر 1962ء کو پنڈت نہرو نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں کہا کہ سیز فائر لائن میں معمولی رد و بدل کرکے اسے سرحد تسلیم کر لیتے ہیں۔ جنوری 1963ء میں اس تجویز پر پاکستان اور بھارت کے مذاکرات ہوئے، پاکستان نے کشمیری قیادت کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا اور مذاکرات ناکام ہو گئے۔
1965ء کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھونس و دھاندلی کے استعمال پر ایوب خان کے خلاف بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ اس غم و غصے کو ختم کرنے کیلئے ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کی منظوری دی۔ پاکستان کے فوجی دستے مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو گئے لیکن بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے سترہ دن کے بعد پھر سیز فائر ہو گیا۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوج کی واپسی کے بعد کشمیر میں بھی مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرحوم رہنما امان اللہ خان نے اپنی آپ بیتی ’’جہدِ مسلسل‘‘ (جلد سوم) میں لکھا ہے کہ اُنکی جماعت نے 1987ء میں خود مختار کشمیر کیلئے مسلح جدوجہد جنرل ضیاء الحق کی تائید و حمایت سے شروع کی لیکن جنرل ضیاء کی موت کے بعد جے کے ایل ایف کے مقابلے پر حزب المجاہدین کو کھڑا کر دیا گیا، اسکے باوجود 1995ء میں کشمیر اپنی آزادی کے قریب تھا۔ جے کے ایل ایف اور حزب المجاہدین کے اختلافات ختم ہو گئے تھے لیکن پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث ہم آزادی حاصل نہ کر سکے۔
1999ء میں کارگل آپریشن کے ذریعہ کشمیر کی آزادی کی ایک اور کوشش ہوئی اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے ایک طرف کشمیر کی تحریک آزادی پر دہشت گردی کا لیبل لگ گیا دوسری طرف سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی نے جنم لیا اور نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔ 2007ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ مسئلہ کشمیر کے اُس حل پر متفق ہو گئے جو پہلی دفعہ اوون ڈکسن نے پیش کیا تھا اور بعد ازاں نہرو نے بھی یہی فارمولا پیش کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر تسلیم کر لیا جائے۔ حریت کانفرنس کے لیڈر سید علی گیلانی نے اس فارمولے کو کشمیریوں سے غداری قرار دیکر مسترد کر دیا اور پھر وکلاء تحریک کے نتیجے میں پرویز مشرف زوال کا شکار ہو گئے اور اپنے فارمولے پر عملدرآمد نہ کر سکے۔ 5اگست 2019ء کے بعد سے بھارت کی حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ مشرف اور منموہن سنگھ میں طے پانیوالے فارمولے پر طاقت کے ذریعہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ راج ناتھ سنگھ کی دھمکی کو محض سیاسی بڑھک نہ سمجھا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں اپنی کتاب The Myth of Independence میں لکھا تھا کہ نہرو کی سوچ وہی ہے جو آر ایس ایس کے لیڈر ساوارکر کی تھی۔ یہ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے ہیں اور ناصرف کشمیر پر قبضے کی کوشش کرینگے بلکہ پاکستان کو بھی توڑنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے چار سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھٹو نے لکھا تھا کہ پاکستان کیخلاف ہر سازش میں بھارت کو امریکہ کی تائید حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی حاصل رہے گی۔ یہ دونوں ملکر پاکستان کا وجود مٹانا چاہتے ہیں اور کشمیری پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا لیکن بھٹو کی وارننگ کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ دشمن کی نظر صرف آزاد کشمیر پر نہیں بلکہ پاکستان پر بھی ہے۔