جون 1953 کو سندھ کے معروف بھٹو خاندان میں جنم لینے والی پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو دو بار اس منصب پر پہنچیں، لیکن اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو کی پنکی سے عوام کی بی بی شہید بننے تک کا یہ سفرآسان نہ تھا۔
چھوٹی عمر میں والد سے سیاسی تربیت کا پختہ سبق لینے والی پنکی نے پاکستان کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور 1969ء میں ہارورڈ کے ریڈ کلف کالج میں داخلہ لیا۔ انھوں نے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ماسٹرز کے بعد پنکی اپنے والد کی وزارت عظمیٰ کے دور میں 1977 میں خارجہ امور میں انٹری کے ارادے لیکر پاکستان آئی لیکن چند ہفتوں بعد ہی مارشل لاء لگا ۔ بھٹو جیل میں اور بینظیر گھر میں نظر بند ہوگئی۔
چار اپریل 1979 کو قتل کے ایک کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر بھٹو کو پھانسی ہوئی تو ان کی پنکی والد کا دیا گیا سیاسی سبق یاد کرتے ہوئے اپنی منزل بنانے اور پارٹی کو بچانے نکل پڑی۔
مارشل لاء کے خاتمے کی جدو جہد، جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی الائنس کا حصہ بننے اور برطانیہ میں 2 سال کی جلاوطن کاٹنے کے بعد بینظیر پارٹی کی سربراہ بنی تو 1986 میں وطن لوٹی جہاں لاہور ائر پورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔۔ نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف زرداری کے ساتھ زندگی کا نیا سفر شروع کیا اور ساتھ ہی سیاست کے کٹھن راستوں پر بھی چلتی رہی۔
اگست 1988 میں ضیاءالحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے تو ملک میں بڑی سیاسی تبدیلی آئی، قائم قام صدر غلام اسحاق خان نے 90 دن میں انتخابات کا اعلان کیا ، 2 دسمبر کو بینظیر بھٹو نے صرف 35 سال کی عمر میں پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا۔
صرف 20 ماہ بعد اگست 1990 میں صدرغلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات پر حکومت برطرف کردی، 2 اکتوبر کو نئے انتخابات ہوئے تو آئی جے آئی کے اتحادی نواز شریف وزیراعظم اور بینظیر اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔
سال 1993 میں صدرغلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں عام انتخابات ہوئے تو بینظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں لیکن پی پی کے اپنے ہی صدر فاروق خان لغاری نے کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے تحت 1996 میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ان پر سوئس بنکوں کے ذریعے سرکاری رقم میں خوردبرد کا الزام عائد تھا جبکہ آصف زرداری 8 سال تک کرپشن کے الزام میں جیل میں رہے۔
اس سے قبل وزرات عظمیٰ پر رہتے ہوئے 20 ستمبر 1996 کو ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیا گیا، بینظیر نے بھائی کے قتل اور حکومت کے خاتمے کے بعد کچھ عرصہ جلا وطنی اختیار کی اور دبئی میں قیام کیا۔اس دوران نوازشریف اور دیگر سیاسی قائدین کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد رکھتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔
جلاوطنی کے دوران ہی 14 مئی 2006 کو نواز شریف اور بے نظیر نے لندن میں میثاقِ جمہوریت پردستخط کیے جس کا مقصد جمہوریت کی بحالی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونا تھا۔ اگلی اہم پیشرفت بینظیر اورجنرل پرویز مشرف کی 28 جولائی سال 2007 میں ابو ظہبی میں ہونے والی ملاقات تھی۔
اس کے نتیجے میں بینظیر 8 سال سے زائد کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن لوٹیں تو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ائر پورٹ پر بے مثال استقبال ہوا لیکن شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب بم دھماکے سے 150 جانوں کے ضیاع نے پارٹی اور کارکنوں کی خوشیاں غم میں تبدیل کردیں۔
نومبر میں جب بینظیر بچوں سے ملنے کیلئے دبئی میں تھیں،تو جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کردی، بینظیر واپس آئیں اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔
حقیقت پسندانہ سوچ کی حامل بینظیربھٹو نے سیاست میں جذبات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے فہم وفراست اور سیاسی پختگی پر مبنی فیصلے کیے، مخالفین کیلئے بھی مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے۔ جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر کی طویل جدوجہد نے انہیں مقبول عام بنا ڈالا۔
ستائیس دسمبر سال 2007 میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد بینظیر نے اپنی گاڑی میں بیٹھ جانے کے باوجود کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کیلئے بطور اظہار یکجہتی گاڑی کی چھت سے سر باہر نکالا ہی تھا کہ کسی نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا، ساتھ ہی گاڑی سے کچھ فاصلے پر خود کش دھماکا ہوا ، ڈرائیور گاڑی کو بھگاتا ہوا راولپنڈی جنرل اسپتال لے کر پہنچا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسنے والی بینظیرکے ساتھ گاڑی میں ان کی ہرمشکل وقت کی ساتھی اور پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان، پارٹی رہنما رحمان ملک اور امین فہیم بھی تھے۔
بھٹوکی پنکی اورعوام کی بی بی سے بی بی شہید بن جانے والی بینظیر بھٹو کو والد کے پہلو میں گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کیا گیا تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔