انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟

تحریر: ڈاکٹر صفدر محمود

کیا ہماری قوم ناخلف ہوگئی ہے؟ اپنے بزرگوں، محسنوں اور پاکستان بنانے والوں کا احترام کرنا بھول گئی ہے؟ آتے ہی میجر جواد نے کئی سوالات داغ دئیے اور میں حیران و پریشان ہو کر ان کا منہ تکنے لگا۔ میجر جواد خاصے پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور انہوں نے تحریکِ پاکستان پر تقریباً سبھی معیاری و تحقیقی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میرے اور ان کے رشتے کی یہی بنیاد ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ صدمے کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ میں نے پوچھا میجر صاحب آپ مجھے غمگین اور پریشان لگ رہے ہیں۔ کیا ہوا؟ انہوں نے لمبی سانس لی اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا کی بےلگام مادر پدر آزادی ہمیں کہاں لے جائے گی؟ آپ بھی دیکھ اور پڑھ رہے ہوں گے کہ جس دن ہمارے حکمرانوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی خبر لیک کی، اسی روز سوشل میڈیا پر ایک اسٹوری وائرل کردی گئی جس میں جسٹس صاحب کے والد گرامی جناب قاضی محمد عیسیٰ کی کردار کشی بڑے گھٹیا انداز سے کی گئی تھی۔ اسٹوری وائرل کرنے والوں کا مقصد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ پر گھٹیا الزامات لگا کر ان کا سایہ ان کے فرزند ارجمند جسٹس فائز عیسیٰ پر ڈالنا تھا۔ یہ زرخیر ذہن اور ماہر نوجوان جنہیں تین بڑی پارٹیوں نے ’’ہائر‘‘ کر رکھا ہے، ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں اور معاشرتی بندھنوں سے آزاد ہیں۔ اپنے لیڈر یا قیادت کی گفتگو، پالیسی اور اقدامات سے شہ پاکر اپنی صلاحیتوں کو مخالفین کے خلاف اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ جیسے وہ دنیا کے کرپٹ ترین، بداخلاق اور گھٹیا ترین انسان ہوں۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ ادھر کوئی بڑا پارٹی لیڈر بیان دیتا ہے یا سیاسی چال چلتا ہے تو ادھر اس کا تخلیق کردہ ’’کردار کشی سیل‘‘ حرکت میں آجاتا ہے اور مخالف کی ذات کے علاوہ اس کے معزز اہل خانہ کو بھی میڈیا کے حمام میں ننگا کردیتا ہے، چنانچہ یہ’’ڈیزائن‘‘ حکمت عملی اور انداز اس طرح ہے جیسے گانے کے ساتھ میوزک جوڑا جاتا ہے۔ ادھر لیڈر گانا شروع کرتا ہے تو ادھر ٹیم بینڈ باجے بجانا شروع کردیتی ہے…

جواد بات ختم کرچکا تو میں نے کہا میں آپ کے ’’غم‘‘ میں برابر کا شریک ہوں۔ گزشتہ دنوں میں نے میاں نواز شریف کے اہل خانہ خاص طور پر معزز پاک دامن بزرگ خواتین کی تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں جنہیں نہایت گھٹیا رنگ میں رنگا گیا تھا تو مجھے شدید صدمہ ہوا۔ میں سوچتا رہا کیا ایسی تصاویر بنانے والوں اور نہایت گھٹیا فقرے لکھنے والوں کے اندر ضمیر نام کی کوئی شے نہیں ہے؟ میں ابھی اس صدمے سے گزر ہی رہا تھا کہ دوسری طرف سے پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے اہل خانہ بارے اسی طرح کا گھٹیا جواب آگیا۔ میجر صاحب بات یہ ہے کہ میں گزشتہ چھ دہائیوں سے پاکستان کی سیاست کا طالبعلم ہوں۔ گھٹیا ذاتی کردار کشی اور خواتین خانہ کی قابل اعتراض تصاویر کا سلسلہ پہلی بار جنرل ضیاء الحق کے انتقال کے بعد جمہوری دور کے آغاز سے شروع ہوا تھا۔ ذو معنی فقرے اور غیر اخلاقی الزامات کا سہارا لے کر ووٹ بینک بنانے کا یہ سلسلہ خاصا عرصہ جاری رہا۔ اب تو انتہا ہوگئی ہے، اب تو کوئی کسر باقی ہی نہیں رہی۔ ایسا غدر برپا ہوا ہے کہ دامن بچا کر رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس بداخلاقی اور گھٹیا پن کو آزادی رائے کا نام دیا جارہا ہے جبکہ مہذب معاشروں میں آزادی رائے اخلاقی اقدار کی پابند ہوتی ہے۔ ہمارے بڑے اور اہم سیاسی قائدین اور ان کے ’’خلیفے‘‘ یہ بھول گئے ہیں کہ وہ اس طرح کے کارناموں سے نوجوان نسل کا اخلاق تباہ کررہے ہیں اور انہیں کردار کشی کی نہایت گھٹیا techniquesطریقوں سے آشنا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم اور خاص طور پر نوجوان قائدین کے کردار، انداز، اظہار اور شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب قائدین کا اخلاق بگڑ جائے تو اس کا لامحالہ اثر قوم اور نوجوانوں پر پڑتا ہے۔ ان تمام سیاسی قائدین کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے بہترین ذہن بھرتی کرنا یا پارٹی کے جوشیلے نوجوانوں کو مہم جوئی پہ مامور کرنا نہایت آسان کام ہے، چنانچہ تینوں پارٹیوں کے میڈیا سیل کے درمیان یلغار اور جنگ جاری ہے۔ ہر قسم کے اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال کر ’’پستی‘‘ کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کا ا نجام بہرحال اخلاقی تنزل اور معاشرتی انتشار کی صورت میں نکلے گا۔ سیاسی معماران نے نفرت کی لکیریں اتنی گہری کردی ہیں اور نفرت کا اس قدر زہر پھیلادیا ہے کہ سارا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اس کے کچھ مناظر اسمبلیوں سے لے کر جلسے جلوسوں تک دیکھے جاسکتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ میں نہ مرحوم قاضی محمد عیسیٰ کو جانتا تھا نہ کبھی جسٹس فائز عیسیٰ کو دیکھا ہے۔ میں قاضی عیسیٰ صاحب کو صرف قائداعظم کا ساتھی ہونے کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ اس حوالے سے میں نے اپنی کتاب مسلم لیگ دور حکومت(1947-54)میں بلوچستان کے حوالے سے قاضی عیسیٰ کا خاصا ذکر کیا ہے۔ قاضی صاحب مرحوم قائداعظم کے معتمد ساتھیوں اور دوستوں میں سے تھے۔ قائداعظم کئی بار کوئٹہ میں ان کے مہمان ہوئے اور ان کے گھر پر ٹھہرے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ قائداعظم کسی ایرے غیرے سے نہ دوستی کرتے تھے اور نہ ہی کسی مشکوک کردار کے گھر ٹھہرتے تھے۔ میں نے پڑھا ہے کہ قائداعظم قاضی صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک چھوٹا سا بچہ قائداعظم کے کمرے میں آن گھستا تھا۔ ایک بار قائداعظم شیو بنارہے تھے اور وہ بچہ شرارتیں کررہا تھا۔ قائداعظم نے لاڈ سے اس کے منہ پر شیو کا تھوڑا سا صابن لگادیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار قاضی صاحب نے قائداعظم کو چاندی سونے میں تول کر سارا سونا چاندی مسلم لیگ کو عطیہ کردیا۔ میں نے یہ واقعہ پڑھا ہے لیکن اس کی سند کوئی نہیں۔ قاضی عیسیٰ نے تحریک پاکستان میں قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور نہ صرف بلوچستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے بلکہ قائداعظم نے بحیثیت گورنر جنرل انہیں بلوچستان کے لئے اپنا مشیر اعلیٰ بھی مقرر کیا۔ اکتوبر 1947میں وہ ایران میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے۔ بہت سے سردار اور قبائلی زعماء ان کے خلاف تھے جن کا ذکر میری کتاب میں موجود ہے۔ مختصر یہ کہ ریفرنس فائل کیا گیا ہے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف اور کردار کشی کی کہانیاں ایجاد کی گئی ہیں ان کے مرحوم والد اور قائداعظم کے معتبر ساتھی کے خلاف۔ یہ نہایت افسوسناک اور گھٹیا حرکت ہے اور ہماری موجودہ سیاست کا سانحہ ہے۔ قوم ناخلف ہے نہ ہی ناشکری لیکن یہ گھٹیا ذہنیت اور اخلاق سے عاری سیاست ہمیں کہاں لے جائے گی؟ یہ سوچ کر میں پریشان ہوجاتا ہوں؎

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: