تحریر: مظہر برلاس
زندگی کی کشتی، موت کے پانیوں میں ہچکولے کھاتی ہے، زندگی اسی گرداب میں گزر جاتی ہے، بھنور کی نذر ہو جاتی ہے۔ نعیم الحق بھی اسی کشتی کا سوار تھا، وہ جدوجہد میں ساتھ رہا، اقتدار آیا تو بیماری آ گئی، بیماری سے بہت لڑا مگر ہار گیا۔ یہی ہوتا ہے بالآخر زندگی ہار جاتی ہے، موت جیت جاتی ہے۔
نعیم الحق گیارہ جولائی 1949کو کراچی میں پیدا ہوا، اس نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب پڑھا اور پھر ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری لی۔ نعیم الحق نے پسند سے یونیورسٹی کی کلاس فیلو سے شادی کی۔ نعیم الحق کی اہلیہ کو بھی کینسر لڑ گیا تھا، آج کینسر خود اسے کھا گیا ہے۔
کسی فلمی ہیرو کے سے انداز لئے نعیم الحق جب بھی ملتا تو برملا کہتا ’’….پارٹنر….‘‘ اس نے خوشی اور غم کو بھی وفا سے جوڑ رکھا تھا، وہ زندگی میں زیادہ خوش اس دن ہوا جب اس کی کلاس فیلو نے شادی کا اقرار کیا اور سب سے زیادہ دکھی اس دن ہوا جب اہلیہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی۔ نعیم الحق دونوں بچوں کو پڑھاتا لکھاتا رہا۔ بس یہی اس کی زندگی تھی۔
1980میں نعیم الحق بطور مرچنٹ بینکر لندن منتقل ہو گئے۔ 1982میں عمران خان نے اس کے پاس اکاؤنٹ کھولا، اس کے بعد سے وہ عمران خان کے پیسے کے معاملات دیکھنے لگا۔ 1984میں نعیم الحق تحریک استقلال کا ہو گیا، اس نے 1988میں اورنگی ٹاؤن سے تحریک استقلال کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا۔ 1996میں جب عمران خان نے تحریک انصاف بنائی تو نعیم الحق پہلے دس افراد میں شامل تھا۔ وہ پہلے دن سے تحریک انصاف کے ساتھ تھا اور اپنے آخری دن تک تحریک انصاف کے ساتھ رہا۔ یہی اس کی وفا کا قصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- نعیم الحق کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی، صدر مملکت اور وزیر اعظم کی شرکت
- وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی نعیم الحق کو سپردخاک کردیا گیا
- شہباز شریف سمیت ملکی سیاسی قیادت کا نعیم الحق کے انتقال پر اظہار افسوس
- 23 سالہ جدوجہد میں نعیم الحق ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑے رہے، عمران خان
- وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق انتقال کرگئے
تحریک انصاف میں بنیادی رکنیت سے آغاز کرنے والے نعیم الحق پارٹی میں مختلف عہدوں پر رہے، پہلے وہ سندھ کے عہدیدار تھے پھر انہیں عمران خان نے مرکز میں بلا لیا۔ نعیم الحق آخری دم تک عمران خان کے وفادار رہے۔ شاید وہ تحریک انصاف میں واحد شخصیت تھے جنہیں ملک بھر سے کارکنوں کا علم تھا، وہ کارکنوں سے ان کی زبان میں گفتگو کرتے تھے، نعیم الحق کے نزدیک رہنماؤں سے زیادہ کارکنوں کی اہمیت تھی۔
میں نے انہیں کارکنوں کی خاطر لڑتے دیکھا۔ نعیم الحق کو ملک کے مختلف شہروں سے بھی شناسائی تھی۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد 50 کی دہائی میں کبھی ایس پی سرگودھا تو کبھی ایس پی لاہور ہوا کرتے تھے۔ اس لئے نعیم الحق کے بچپن کے ایام پنجاب کے کئی شہروں میں بسر ہوئے۔
2011کے بعد تحریک انصاف بڑی پارٹی بننا شروع ہوئی تو پارٹی عہدیداروں کی مصروفیات بڑھ گئیں ورنہ اس سے پہلے تو اکیلا سیف اللہ نیازی ہماری ملاقاتیں کروایا کرتا تھا۔ گزرے ہوئے چند برسوں میں نعیم الحق چیف آف اسٹاف تھے، یہ چیف آف اسٹاف برائے چیئرمین تحریک انصاف۔ وہ صبح سے شام تک بلکہ رات گئے تک پارٹی امور چلاتے۔ اس کے بعد خان صاحب کی رہائش گاہ سے نکلتے اور بنی گالہ ہی میں کرائے کے ایک گھر میں آ کے سو جاتے۔
نعیم الحق اور عون چوہدری ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ عون چوہدری نے بھی بڑی محنت کی۔ میری نعیم الحق سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ جب بھی عمران خان سے ملنے جاتا تو ان سے ضرور ملاقات ہوتی، اس کے علاوہ بھی ملاقاتیں رہیں۔ وہ ہمیشہ میرے کالموں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ’’تم اگر شہنشاہ اکبر کے دور میں کالم لکھتے تو تمہارا کالم صد ہزاری ہوتا‘‘
اگرچہ عدیل مرزا، ان کی صحت کے بارے میں بتاتا رہتا تھا مگر مجھے دو ماہ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب نعیم الحق کا آخری دور چل رہا ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں آئے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’….میں تو اپنے پارٹنر کے ساتھ بیٹھوں گا….‘‘ خیر ہم دونوں ایک صوفے پر بیٹھ گئے مگر مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب وہ کہنے لگے کہ ’’….پرائم منسٹر سے آپ کی ملاقات کیسی رہی….‘‘ میں نے کہا کہ نعیم بھائی! میں تو آج نہیں ملا۔ وہ کافی دیر بضد رہے کہ ’’….آپ ملے ہو، میں نے آپ کو خود دیکھا ہے….‘‘ اس دن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب ان کی یادداشت پر گہرا اثر پڑ چکا ہے۔
نعیم الحق نے کبھی مالی کرپشن نہیں کی۔ آخر ہر ایک کو جانا ہے، نعیم الحق بھی چلا گیا۔ جانے والے کو روکا تو نہیں جا سکتا، اس کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ 38سالہ رفاقت کے باوجود عمران خان، نعیم الحق کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے، ڈاکٹر عارف علوی تو کراچی کے رہنے والے ہیں، وہی جنازے میں شریک ہو جاتے مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ ہمارے معاشرے میں بےحسی کی کئی مثالیں ہیں مگر وزیراعظم اور صدر نے تو بےحسی کی ساری حدیں پار کر دیں۔ کچھ لوگ سیکورٹی کے نام پر بہانے تراشیں گے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پچھلے سال قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا حادثے میں جاں بحق ہوا تھا، اس کے جنازے میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوں شریک ہوئے تھے، سکیورٹی خدشات تو انہیں بھی تھے، قمر زمان کائرہ پیپلز پارٹی کے بانی رکن بھی نہیں ہیں، ان کی زرداری صاحب سے وہ دوستی بھی نہیں جیسی نعیم الحق اور عمران خان کی تھی۔ شاید ایسے ہی وقت کے لئے اظہر سہیل نے کہا تھا کہ؎
ویلا خورے کیہڑا نقش مٹا دیوے
مینوں رج کے ویکھ لو میرے نال دیو