بڑھتی مہنگائی اور ملکی مسائل محمد فاروق چوہان

بڑھتی مہنگائی اور ملکی مسائل

تحریر: محمد فاروق چوہان

اربابِ اقتدار نے تبدیلی کے نام پر عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ ملکی مسائل میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ لوگوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف انتخابی مہم میں قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے اور مہنگائی، بےروزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات وقت کا اہم تقاضا ہیں۔

 طرفہ تماشا یہ ہے کہ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ آٹا اور اشیائے خردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی، گیس کے نرخ بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ عوام پر نئے ٹیکس لگانے کے لیے مختلف حیلوں بہانوں سے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ ایسی گمبھیر صورتحال میں محض 18ارب کا ریلیف پیکیج ناکافی ہے۔ حکومت عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے کے لیے اشیائے خردو نوش کی اوپن مارکیٹ میں قیمتیں کم کرے۔ محض یوٹیلیٹی اسٹورز  پر غیر معیاری اشیاء کی قیمتوں کو تھوڑا سا کم کرنے سے غریب عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، معیاری کمپنیوں کی اشیائے خردو نوش کی قیمتوں کو بھی فوری طور پر کم کیا جائے تاکہ وہ عام آدمی کی دسترس میں آسکیں۔

 آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد کرنے سے ملکی معیشت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ادارے تباہ و برباد اور نااہل افراد کے ہاتھوں میں دئیے گئے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے باعث ایک کھرب 42ارب 40کروڑ روپے ڈوب گئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے سے خوفزدہ ہیں۔ کرپشن کے ریٹ مقرر ہیں۔ جس ملک میں نااہل اور نالائق حکمران مسلط، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ اور حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی ساڑھے پانچ لاکھ میں ہو جائے تو وہ کیسے اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے؟۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے پارلیمنٹ میں لانے چاہئیں۔ المیہ یہ ہے کہ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت 2019ء میں 10کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق کل ملکی آبادی کے 42فیصد افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ 

عوامی مسائل میں بےپناہ اضافہ ہوا جبکہ حکمران طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ حکومت کے غیر دانشمندانہ اور ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کی بدولت عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ وزارت خزانہ کی قرضہ حکمت عملی کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں مجموعی طور پر 1105ارب روپے کے قرضے حاصل کیے جائیں گے۔ جس میں 4177ارب بیرونی اور 6898ارب مقامی قرضہ ہوگا۔ 2020 میں مزید 3173ارب حاصل کیے جائیں گے جب کہ ادائیگیاں بروقت نہ ہونے کی وجہ سے سود کا حجم 45ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر ملکی قرضوں سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔ 

اشیائے خردو نوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات میں بھی عوام سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس کی وصولی انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکمران عوام کے لیے موت کا فرشتہ بن چکے ہیں۔ تبدیلی سرکار نے سابق حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تحریک انصاف کی تبدیلی کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ عوام کو ریلیف، ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور چوروں لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے سمیت تحریک انصاف کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ 

قوم کی موجودہ حکمرانوں سے بھی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ حکومتی اقدامات اخباری بیانات اورٹویٹر پیغامات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹی تسلیاں اور دکھاوے کے کام کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کی 18ماہ کی کی کارکردگی قوم کی کے سامنے ہے۔

گھریلو صارفین سے گیس پریشر چارجز کی وصولی کو غیر قانونی قرار دینے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ حکومت اپنی نااہلی اور ناکامی کا سارا ملبہ بھی عوام پر گرانا چاہتی ہے۔ اہم قومی ادارے تباہی کا شکار ہیں۔ پی آئی اے کی آڈٹ رپورٹ میں 6ارب 8کروڑ 54لاکھ کی بےقاعدگیوں کا انکشاف تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ 

صرف دو ماہ قبل رجسٹر ہونے والے کمپنی کو پی آئی اے کی انتظامیہ نے 70کروڑ کا ٹھیکہ دے کر واضح کر دیا ہے کہ ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ تبدیلی کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں مگر مجال ہے کہ حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک بھی رینگتی ہو۔ غیر ملکی ادارے بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دسمبر 2010کے بعد جنوری 2020میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ حکمرانوں کے پاس زبانی کلامی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ معیشت سکڑ گئی ہے۔ 

کاروبار تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ 18ماہ میں ملکی پیدوار میں خاصی کمی ہو چکی ہے۔ ایک سال کے دوران بینکوں کے نادہندہ قرضے 774ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔ حکومت نے جن ترقیاتی اسکیموں کے لیے 701ارب روپے مختص کیے تھے، ان میں سے اب تک 188ارب ہی خرچ ہو سکے ہیں۔ 

متعلقہ ادارے، انتظامیہ اور حکومت سب کا رویہ غیر سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عوامی فلاح و بہبود کی کسی کوئی پروا نہیں۔ وزیراعظم ملک میں پناہ گاہیں بڑھانے کے ساتھ ساتھ قوم سے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی پورا کریں۔ کرپٹ مافیا خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو، کو منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہئے۔

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: