تحریر: ڈاکٹر صغرا صدف
تبدیلی اور اضطراب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اضطراب اگر جستجو اور کچھ کرنے کی لگن سے جڑا ہو تو مثبت نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اضطراب اور پچھتاوے میں بہت فرق ہے بلکہ یہ متضاد کیفیات ہیں۔
انسان اضطراب کا شکار تب ہوتا ہے جب وہ کچھ کرنا چاہے، اس کے ارادے بھی پختہ ہوں۔ عزم بھی مصمم ہو اور راستہ بھی ہموار مگر انجان قوتیں عارضی رکاوٹیں رکھ کر رابطے مفقود کردیں۔ بہرحال طاقتور جذبہ اور ارادہ اپنا رستہ بنا ہی لیتا ہے۔ آج کل سیاسی اور فطری ماحول پر اضطراب کا راج ہے۔
اسے موسمِ اضطراب بھی کہہ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کچھ بدل رہا ہے، کیا ہم بدل رہے ہیں، ہمارے رویے بدل رہے ہیں اور کیا یہ تبدیلی جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کی ضمانت ہوگی یا رستے میں محض روڑے اٹکا کر وقت برباد کرنے یا غلط افواہوں سے ملکی موسم کی فضا کو ناسازگار کرکے سرمایہ کاری کرنے والوں کو متفکر کرنا۔
بہرحال تبدیلی سے قبل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ضروری ہوتا ہے۔ جس طرح طلوع صبح سے قبل ایک بار اندھیرا کچھ زیادہ گہرا ہو جاتا ہے تاکہ روشنی کو اپنا اظہار کرنے اور اسے مات دینے کے لئے بھرپور کوشش کرنا پڑے۔
فروری کے مہینے کے وسط میں عموماً آغازِ بہار ہوجاتا ہے۔ زمین سردی کی کہر زدہ لہر اتار پھینکتی ہے، سورج کے اشارے پر دبکے ہوئے بیج حرکت میں آتے ہیں، زمین کا صحن رنگوں اور خوشبوؤں سے بھرنے لگتا ہے، تیز ہوا سوکھے پتوں کو خدا حافظ کہہ کر نئی کونپلوں کی راہ ہموار کرتی ہے تاکہ مارچ میں ان پر سبز پتوں اور پھولوں کی ٹوکریاں لادی جا سکیں۔
یوں یہ دس پندرہ دن بدلتے موسم کے لئے سخت جان لیوا ہیں۔ اس نمو کیلئے جس کا زمین، فضا اور ماحول کو سامنا ہے۔ ایک حالت سے دوسری میں تبدیل ہونا آسان عمل نہیں ہوتا۔
اس کیلئے پوری قوت صرف کرنا پڑتی ہے۔ ہمیں اُمید ہے فطرت اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگی اور مارچ میں بہار اپنے جوبن پر ہوگی مگر جو اضطراب اور کشمکش اس وقت اپوزیشن اور حکومتی ایوانوں میں ہے وہ کس شکل میں اپنا اظہار کرے گی اور اس سے کیا بہتری برآمد ہوگی، اس کے بارے میں اندازے لگائے جا سکتے ہیں حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔
سوال یہ ہے کہ اتنے تجربوں کے بعد کیا ہم اب واقعتاً بدلنے کے لیے تیار ہیں اور اس بہار کو خوش آمدید کہنے کے قابل ہیں جس کا خواب اس ملک کو حاصل کرنے سے پہلے دیکھا گیا تھا، یعنی ایک جمہوری ملک کا خواب جس میں جمہور کی حکومت ہو، جمہور کی توقیر ہو، جمہور کے مفادات اُسی وقت پنپ سکتے ہیں جب جمہوریت مضبوط ہو۔
مضبوط جمہوری حکومت کے فیصلے عوام کے شعور اور حقوق کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تبدیلی کے نعرے پر حکومت حاصل کی تھی، تبدیلی لانے کیلئے اُسے مروجہ استحصالی نظام کو تبدیل کرنا پڑے گا اور خود کو بھی بدلنا ہوگا۔
کوئی بات نہیں ڈیڑھ سال کے تجربات سے دوستوں دشمنوں اور خیر خواہوں کی پہچان کے ساتھ ساتھ اچھائیوں اور کوتاہیوں کی بھی نشاندہی ہوگئی۔ کامیاب وہی ہوتا ہے جو وقت کے تقاضے سمجھتا ہے۔
حالات کا رُخ محسوس کرتا ہے اور پھر جمہوری نظریات کے مطابق تبدیلیاں کرتا ہے۔ جمہوریت میں مشاورت اور رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے اس لیے یوٹرن کا آپشن رکھنا پڑتا ہے۔ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایک فرد یا چند افراد کا فیصلہ حرفِ آخر نہیں بلکہ اکثریت کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔
جمہوریت صرف نظام کانام نہیں، حرکت کرتے پارلیمان، وزرا، ممبران اور افراد کی کارکردگی کا نام ہے۔ آپ ایک نظام کو کتابوں میں مضبوط دکھا سکتے ہیں مگر حقیقی طور پر وزیراعظم کے اختیارات کو یقینی بنانے سے جمہوری عمل پختگی کی طرف رخ کرتا ہے۔ جب تک اس عہدے کو عالمی اور ادارہ جاتی بندشوں سے آزاد نہیں کروایا جائے گا الجھنیں برقرار رہیں گی۔
اگر اس حکومت کو برسوں کی جدوجہد کے بعد کام کرنے کا موقع ملا ہے تو انہیں کام کرنے کا وقت دینا چاہئے۔ عوام،حکومتی ارکان، اپوزیشن اور اداروں کا اعتماد ان کے حوصلے بلند کرکے مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے قابل بناتا ہے۔
جس طرح ہمارے حقوق ہیں، جمہوری حکومت کا بھی استحقاق ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا کل بدلے، ہمارا مستقبل روشن ہو تو ہمیں آج سے مثبت سوچ کو ذہن میں جگہ دینا ہوگی۔
اپنے حق سے پہلے اپنی حد، اپنے فرض اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ یقیناً زیادہ مشکل اور آزمائش کے دن گزر گئے ہیں، اچھے دن آنے والے ہیں اور وہ اچھے دن ہماری حکومت کی مشترکہ جدوجہد سے آسکتے ہیں۔ آج عوامی شعور کا دور ہے۔ گزشتہ دنوں دونوں بڑی جماعتیں قانون سازی کے نتیجے میں اپنے ووٹرز کا غم وغصہ اچھی طرح ملاحظہ کر چکی ہیں۔
اب لوگ اس بات سے غرض نہیں رکھتے کہ وہ جس جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں، کسی بھی طرح اس کی حکومت ہو بلکہ وہ نظریات اور اصولوں کی جیت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب جو بھی جماعت کسی بھی طرح سے استعمال ہوگی اور کسی سیاسی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں اپنا کردار ادا کرے گی وہ عوام کی نظروں میں معتبر نہیں رہے گی اور اس کا خمیازہ اسے آئندہ انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔
اس لیے جمہوریت کے شاندار مستقبل کی ضمانت اسی میں ہے کہ تمام جماعتیں جمہوری عمل کو بہتر بنائیں۔ نئے تجربے کرنے والے فسطائیت کے مبلغین جن کے پاس قلم بھی ہے، گفتگو کیلئے میڈیم بھی ہے اور اس کی گفتگو میں تاثیر بھی ہے، کی چالوں کو سمجھیں۔