پانچ سال میں 70 سے زائد سماعتیں۔
تحریکِ انصاف کی جانب سے جمع کروائی گئی کم از کم 30 درخواستِ التوا اور پانچ مختلف اعلی عدالتوں کے پاس الیکشن کمیشن میں سماعت کے خلاف دائر درخواستیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کو اکاونٹس کا ریکارڈ جمع کروانے کے لیے دیے گئے 21 نوٹس۔
یہ ہیں پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف دائر فارن فنڈنگ کیس سے جڑے اعداد و شمار۔ لیکن یہ کہانی محض نمبروں کی نہیں، بلکہ کئی برسوں پر محیط ایک ہائی پروفائل کیس کی کہانی ہے۔ اس کیس کے سیاسی پہلو بھی ہیں اور قانونی بھی اور یہ معاملہ اب اتنی مختلف عدالتوں کے سامنے جا چکا ہے کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اس میں ہونے والی پیش رفت سے باخبر رہنا ناممکن ہے۔
لیکن اب اس کیس کی سماعت متوقع ہے، کیونکہ حزبِ مخالفت کی جماعتوں کی رہبر کمیٹی کی درخواست پر چیف الیکشن کمشنر نے حکم دیا کہ اس کیس میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔
لیکن یہ معاملہ ہے کیا، کیس دائر کس نے کیا تھا اور اس میں اپوزیشن کی جماعتوں کا کیا لینا دینا ہے؟ آئیے ہم اس کیس کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں۔
فارن فنڈنگ کیس کی درخواست: ’کچھ ایسی چیزیں جو غیر قانونی تھیں‘
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی درخواست تحریک انصاف کے بانی رکن اور 2011 تک مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے اکبر ایس بابر نے اپنے وکلا سید احمد حسن شاہ اور بدر اقبال چوہدری کے ذریعے دائر کی تھی۔
اس میں دعویٰ کیا گیا کہ تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کے لیے موجود قانون ’پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002‘ کی خلاف ورزی کی ہے اور اس لیے پارٹی چیئرمین عمران خان اور خلاف ورزیوں کے مرتکب دیگر قائدین کے خلاف کارروائی کی جائے۔
درخواست میں کہا کیا کہ تحریک انصاف سال نے2007 سے 2012 تک جو فنڈ غیر ممالک سے اکھٹا کیا ہے اس کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئی ہیں۔
درخواست کے مطابق قانون کے تحت ہر سیاسی پارٹی کے لیے ہر سال حاصل کردہ فنڈ، اثاتے اور ان کی آڈٹ رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی بھی غیر ملکی سے کوئی بھی فنڈنگ حاصل نہیں کرسکتی۔ اسی طرح پاکستانی کمپنیوں، این جی او وغیرہ سے بھی فنڈنگ حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔
اکبر ایس بابر کے مطابق جب عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو وہ اس وقت سے پارٹی کے ساتھ ہیں۔ ان کے بقول وہ دس سال تک مرکزی سیکرٹریٹ کے معاملات دیکھتے رہے۔
’2011 میں مجھے کچھ ایسی چیزیں ملیں جو غیر قانونی تھیں۔۔۔ جو کچھ دیکھا اور سمجھا وہ عمران خان کے اس دعوے کے خلاف تھا جو وہ کرپشن کے خلاف بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ میرے جیسے سیاسی کارکن کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا۔ میرا ضمیر یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے مشاہدے کے نتیجے میں عمران خان کو سات صحفات پر مشتمل ایک طویل خط لکھا جس میں سارے غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کی گئی۔
’اس خط کے بعد میں خاموش ہو کر گھر بیٹھ گیا اور مجھے یقین تھا کہ عمران اس پر ایکشن لیں گے۔ اس دوران میری عمران خان کے ایک قریبی عزیز سے ملاقات ہوئی اور ان کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ میں دوبارہ متحرک ہو جاؤں اور یہ کہ تمام شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ میں نے کہا پہلے کرپشن کا خاتمہ اور غیر قانونی کاموں کے مرتکب افراد کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔‘
اکبر ایس بابر کے مطابق عمران خان نے ان کی شکایت پر ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی، جس نے اپنی رپورٹ بھی تیار کی۔ تاہم اکبر بابر کو وہ رپورٹ نہیں دی گئی۔ ’میں انتظار کرتا رہا کہ عمران خان ایکشن لیں گے مگر انھوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا، جس پر 2014 میں تمام ثبوتوں کے ہمراہ میں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا۔‘
ان کا دعوی تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو جو آڈٹ رپورٹ جمع کروائی اس میں بیرون ممالک سے اکھٹے ہونے والے فنڈز، ان کے خرچ اور ذرائع کی تفصیل نہیں فراہم کی گئی۔
تحریکِ انصاف کا موقف: ’بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کا پیسہ فارن فنڈنگ نہیں‘
تحریک انصاف کے سیکرٹری فنانس سردار اظہر طارق خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اکبر ایس بابر کی جانب سے لگائے گے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کا حصہ رہے تھے اور اس دوران پارٹی قیادت سے ان کے اختلافات بھی ہوئے۔
ان کے مطابق اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد وہ ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
’اس کیس کو فارن فنڈنگ کا نام دینا ہی بڑی بدنیتی ہے۔ تحریک انصاف نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے جو فنڈز حاصل کیے ہیں وہ ان ممالک کے قوانین اور پاکستان کے قوانین کے مطابق حاصل کیے ہیں جن کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اور اس کا آڈٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کیا گیا ہے۔‘
یہی موقف کچھ روز قبل حکومتی ترجمان اور وزیراعظم کی مشیر فردوس عاشق اعوان نے بھی دھرایا تھا۔
ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں ابھی بھی زیر سماعت ہے جس کی تاریخ سات دسمبر مقرر ہے تاہم اس میں کسی قسم کا کوئی بھی حکم امتناعی جاری نہیں کیا گیا۔
ن لیگ، پیپلز پارٹی بھی شامل
مسلم لیگ ن کے سابق ممبر قومی اسمبلی حنیف عباسی نے سنہ 2017 میں سپریم کورٹ میں دائر کردہ رٹ پیٹیشن میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت جاری کرے کہ فارن فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ استدعا قبول کر لی تھی اور احکامات جاری کیے تھے کہ الیکشن کمیشن اس کیس کا جلد فیصلہ کرے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کا بھی دعویٰ ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف اکاؤنٹ کے جانچ پڑتال کی درخواست 2017 میں جمع کروائی تھی۔
تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلوے فرخ حبیب نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے اکاوئنٹس کے تمام ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے ہیں اور وہ منی لارڈنگ کے مرتکب ہیں۔ ہم نے بھی دونوں پارٹیوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی درخواست کی ہے۔‘
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا تھا کہ انھوں نے الیکشن کمیشن سے کوئی بھی تفصیلات نہیں چھپائی ہیں۔ تحریک انصاف ثبوت لائے، میڈیا کو دکھائے اور الیکشن کمیشن سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کروا لے۔
اکبر ایس بابر کے مطابق تحریک انصاف کے بیرونی ممالک میں اکاوئنٹس اور کمپنیوں کے دعوے
- امریکہ میں دو لمٹیڈ لائیبلٹی کمپنیاں (ایل ایل سی) نمبر 5957 اور ایل ایل سی نمبر 6160 عمران خان کے دستخط سے رجسڑڈ کروائی گئیں اور ان سے 1,998,700 ڈالر اور 669,000 ڈالر پارٹی کو منتقل ہوئے۔
- آسڑیلیا میں انصاف آسڑیلیا انکارپوریٹڈ کے نام سے رجسڑ کروایا گیا۔ جس کا بزنس نمبر 45838549859 ہے۔ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ بیکنگ گروپ کے ذریعے سے 35, 200 آسڑیلین ڈالر پاکستان منگوائے گئے تھے۔
- برطانیہ میں تحریک انصاف یو کے کو رجسڑ کروایا گیا اور دو بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوائے گے۔ وہاں سے بھی رقوم پاکستان منتقل ہوئیں۔
- ڈنمارک سے 249,669 کرونا منگوائے گئے۔
- سعودی عرب سے 8,370,880 روپے منگوائے گے۔ اسی طرح سعودی عرب سے سالانہ 25.6 ملین روپے آتے رہے۔
- متحدہ عرب امارات سے سالانہ 22.42 ملین روپے آتے رہے۔
- کویت سے سالانہ 2.89 ملین روپے آئے۔
- قطر سے سالانہ 0.80 ملین روپے آئے۔
- بحرین سے سالانہ 930,123 روپے آئے۔
اکبر ایس بابر کا دعوی تھا کہ ان سب اکاوئنٹس کی کاپیاں درخواست کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ ان رقوم کی تفصیل ہے جو کہ بینکوں کے ذریعے سے آئی ہے۔
ان کا دعوی تھا کہ تحریکِ انصاف ہر سال 52 ملین روپے ہنڈی کے ذریعے منگواتی تھی، اور اس کے ثبوت بھی انھوں نے فراہم کیے۔
تاہم تحریک انصاف کے سردار اظہر طارق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ تحریک انصاف نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ ’جن ممالک میں کمپنیاں رجسڑ کروائی گئیں وہ ان ممالک اور پاکستان کے قوانین کی پوری پاسداری کرتے ہوئے رجسڑ کروائی گئیں تھیں۔‘
ان کے مطابق جو فنڈز وہاں پر مقیم پاکستانیوں سے حاصل کیے گئے ان کی تمام تفصیل، خرچ اور ذرائع اپنی آڈٹ رپورٹ میں پابندی کے ساتھ الیکشن کمیشن کو فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر نے اپنی درخواست کے ہمراہ جو ثبوت لگائے وہ صرف اور صرف فوٹو سٹیٹ ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
فارن فنڈنگ کیس میں اب تک کیا ہوا ہے؟
- اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 کو درخواست دائر کی تھی۔ اس کی ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
- الیکشن کمیشن میں ابتدائی سماعت کے بعد باقاعدہ سماعت ہوئی۔ یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا کہ تحریک انصاف نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں حاصل ہونے والے فنڈز اور ان کے ذرائع کی تمام تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
- تحریک انصاف نے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن کے سامنے ہی چیلنج اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرے۔
- الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کی یہ درخواست خارج کردی۔
- 26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے اسلام ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار اور درخوست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ یہ مقدمہ تقریباً ایک سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا۔
- 17فروری 2017 کو یہ کیس دوبارہ الیکشن کمیشن کو اس حکم کے ساتھ بھجوا دیا گیا کہ وہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کی جانچ کرئیں۔
- الیکشن کمیشن نے دوبارہ سماعت کی اور انھیں اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
- 10دس نومبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی سکروٹنی ہونی تھی جس پر پارٹی نے دوبارہ عدالتوں سے رجوع کیا۔
- 26 نومبر 2015 کو عمران خان نے پیٹیش دائر کی کہ وہ فنڈز کی سکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں۔
- تحریک انصاف کی جانب سے مختلف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کے سبب الیکشن کمیشن میں سماعت عارضی طور پر رک گئی۔
الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران اہم پیش رفت
- اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناعی خارج ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کمیشن میں سماعت کا آغاز ہوا۔ مارچ 2018 میں فنڈز کی سکروٹنی کے لیے کمیٹی قائم کر دی۔
- تین جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ تحریک انصاف ضروری تفصیلات فراہم نہیں کر رہی ہے جس پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009 سے لے کر 2013 تک تحریک انصاف کے بینک اکاوئنٹ طلب کیے گے۔
- سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئیں جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے پاس آٹھ اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔
- اکتوبر 2018 میں سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔
- ایک آڈیٹر کی تبدیلی کے بعد دوسرے آڈیٹر کی نامزدگی کی گئی۔
- نئی سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس مارچ 2019 میں ہوا جس میں تحریک انصاف سے دس فنانشل دستاویزات طلب کیے گے۔
- مئی میں ایک اور اجلاس ہوا مگر کاروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ سکروٹنی کے عمل کو خفیہ رکھا جائے۔
- اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 اکتوبر کو تحریک انصاف کو نوٹس لکھ کر تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے سکروٹنی کمیٹی کو کارروائی جاری رکھنے کا کہا گیا۔
- 29 اکتوبر 2019 کو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف کے اکاؤٹنٹ تو پیش ہوئے مگر وکلا نے بائیکاٹ کردیا اور موقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
- نومبر 2019 میں بھی اجلاس کی کاروائی نہ چل سکی۔ تحریک انصاف کے وکل کی جانب سے موقف پیش کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔
اکبر ایس بابر کا دعوی ہے کہ تحریک انصاف تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ جس وجہ سے کیس میں اتنی تاخیر ہورہی ہے۔
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس اہم کیس پر نظر رکھنے والے صحافی این بی سومرؤ کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے اکاوئنٹس کی فراہم کردہ تفصیلات ایک انتہائی اہم ڈرامائی موڑ تھا۔ جس سے اس کیس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں کو مزید ہوا ملی اوراس میں مزید جان پیدا ہوئی۔
سٹیٹ بینک کی طرف سے 23اکاوئنٹس کی تفصیلات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا یہ انتہائی اہم ثبوت ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف اس معاملے میں کیا موقف پیش کرتی ہے۔
پولٹیٹکل پارٹیز ایکٹ
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ 2002 میں سابق صدر پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں کے لیے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 جاری کیا تھا۔ جس کو 2007 میں پیپلز پارٹی دور حکومت میں قانونی تحفظ دیا گیا تھا۔
سال 2017 میں تھوڑے بہت رد بدل کے ساتھ پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2017 نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت بھی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہ ہر سال چارٹر اکاؤنٹنٹ سے پارٹی فنڈز کا آڈٹ کروانے کے بعد الیکشن کمیشن میں اپنی رپورٹ جمع کروائیں گئیں۔ اس قانون میں بھی غیر ملکیوں،غیر ملکی تنظیموں، قومی کمپنیوں، کاروباری اداروں، قومی این جی اوز سے بھی فنڈز حاصل کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ فنڈنگ صرف اپنے کارکنان اور پاکستانی عوام ہی سے ذاتی حیثیت میں حاصل کرسکتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ تو اپنے اثاثے چھپا سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے فنڈز کے ذرائع۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ آرٹیکل 2012 بڑا واضح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکیوں اورخلاف قانون قرار دی گئیں تنظیموں سے فنڈز وصول کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
فارن فنڈنگ کیس اب کیسے چلے گا؟
کنور دلشاد کا تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن میں جاری کیس کے حوالے سے کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں چار، پانچ سال سے یہ جھگڑا چل رہا ہے۔
تحریک انصاف کہتی ہے کہ الیکشن کمیشن تحقیقات نہیں کرسکتا اس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ اکبر ایس بابر کی رائے میں اگر الیکشن کمیشن کو یہ ریکارڈ جمع کروانا ہوتا ہے تو وہ اس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرنے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تحریک انصاف مختلف عدالتوں سے بھی رجوع کر چکی ہے جبکہ اس حوالے سے ایک انتہائی اہم فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے سال 2017 میں آیا تھا۔ جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کیس پر جلد فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ اب فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کرے گا۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت تحریک انصاف کا جو کیس زیر سماعت ہے اس کی تاریخ سات دسمبر ہے مگر اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کے خلاف کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا ہوا ہے جس وجہ سے الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی اپنی کارروائی جاری رکھ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ چیئرمین الیکشن کمیشن سردار رضا پانچ دسمبر کو اپنی مدت پوری کر رہے ہیں جس وجہ سے توقع کی جارہی ہے کہ شاید وہ اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے اس کیس کا فیصلہ کردیں۔
صحافی ایم بی سومرؤ کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اکاؤنٹ کی جانچ کے لیے سکروٹنی کمیٹی قائم کر رکھی ہے۔ اس سکروٹنی کا صرف اتنا کام ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اکاونٹس کی جانچ کر کے اپنی تحقیقاتی رپورٹ سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دے۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں بھی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر مکمل سماعت ہوگی۔ جہاں پر دونوں فریقوں کو طلب کیا جائے گا۔ رپورٹ پر ان کا موقف پوچھا جائے گا۔ اب وہ رپورٹ جس بھی فریق کے خلاف ہوگی وہ اس رپورٹ کو الیکشن کمیشن ہی میں چیلنج کرنے کا حق رکھتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے لیے اس کو سننا لازم ہوگا۔
اس طرح لگتا ہے کہ یہ معاملہ شاید ایک دو ماہ میں بھی حل نہ ہوسکے۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ یہ بات دلچسپ ہوگی کہ آیا موجود الیکشن کمشنر اپنی ریٹائرمنٹ، پانچ دسمبر سے پہلے اس کیس کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ نہیں۔
قانون اسد منظور بٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس پر جو بھی فیصلہ کرے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی