پہلی انڈین ٹیم: کرکٹ کی سیاست

دنیائے کرکٹ میں کہا جاتا ہے کہ کرکٹ بھارتی کھیل ہے جو حادثاتی طور پر برطانیہ میں ایجاد ہوا۔

تاریخ کا جبر ہے کہ ایک کھیل جو صرف سامراجی آقاؤں کے لیے مخصوص تھا آج سابقہ باج گزار ریاستوں (ممالک) میں قومی جنون بن چکا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان سب ہی اس کے سحر میں مبتلا ہیں اور بھارت کرکٹ کی عالمی طاقت ہے۔


بھارت میں عام افراد بھی کرکٹ ٹیم کو ایک قوم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ٹیم انڈیا کو قومی وحدت کا استعارہ اور اس کے کھلاڑیوں کو قومی تنوع کی مثال سمجھا جاتا ہے۔


سابق بھارتی کرکٹ راہول ڈریوڈ نے دو ہزار گیارہ میں لکھا کہ گزشتہ ایک دہائی میں بھارتی ٹیم مختلف ثقافتوں سے آئے کھلاڑیوں کا مجموعہ بنی جو مختلف زبانیں بولتے ہیں، ان کے مذاہب مختلف ہیں اور ان کے طبقات میں بھی کہیں زیادہ فرق ہے۔


لیکن کرکٹ اور اس قوم کا تعلق نا تو قدرتی ہے اور نا ہی کوئی انہونی۔

برطانوی سامراج میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے قیام کے لیے تین ناکام کوششوں اور بارہ سال کی محنت کے بعد پہلی انڈین ٹیم 1911 میں میدان میں اتری۔

بھارتی فلم ’’لگان‘‘ سے تخلیق کیے گیے عام تاثر کے برعکس بھارت کی ’’قومی ٹیم‘‘ سامراج نے بنائی تھی نا کہ سامراج کے خلاف بنائی گئی تھی۔

پہلی بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کا برطانوی میڈیا میں چرچہ رہا


بھارت کے بڑے کاروباری افراد، ریاستوں کی افسر شاہی، برطانوی گورنرز کے ساتھ کام کرنے والے بھارتی، سول سرونٹس، صحافیوں، فوجیوں اور پروفیشنل کوچز نے مل کر بھارتیوں کو کرکٹ کی پچ پر لانے کے خواب کو حقیقت بنایا۔


برطانوی سامراج اور مقامی افسر شاہی کے اشتراک سے بھارت کی کرکٹ ٹیم نے سلطنت برطانیہ میں کوہلی اور سرفراز الیون سے سو سال پہلے انگلینڈ کی ٹیم کا مقابلہ کیا۔


جادوگر رنجی
بھارتی کرکٹ ٹیم بنانے کی تاریخ طویل اور کئی نشیب و فراز سے بھرپور ہے۔ یہ خیال 1898 میں اس وقت آیا جب بھارتی شہزادے کمار شری رنجیت سنھجی یا رن جی نے برطانیہ اور سامراجی دنیا کو اپنی بیٹنگ سے دیوانہ بنایا۔


بھارت میں کرکٹ کو پھیلاؤ دینے والے رنجی کی شخصیت کو ایک ٹیم بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ لیکن شہزادہ رن جی نے اپنی کرکٹ سے کمائی عزت کو نواں نگر کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔

شہزادہ خوفزدہ تھا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم سے اس کی قومیت پر سوال اٹھیں گے اور ساتھ ہی وہ برطانیہ کی جانب سے کرکٹ کھیلنے سے بھی محروم ہو جائے گا۔ برطانیہ اسٹیبلشمنٹ کے کئی افراد جن میں بمبے (موجودہ ممبئی) کے گورنر لارڈ ہیرس شامل تھے شہزادہ رن جی کو کرکٹر سے زیادہ نوارد تصور کرتے تھے۔


چار سال بعد ایک نیے تصور نے جنم لیا۔ اس مرتبہ یورپینز نے بھارتی ایلیٹ کلاس کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنانے کی ٹھانی جو کرکٹ میں بھارتی ٹیلنٹ کی نمائندگی کرے۔ لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نا ہوسکی کیونکہ ہندوؤں، پارسیوں اور مسلمانوں میں ٹیم میں شمولیت اور حصے پر اختلافات کھیل سے زیادہ بڑھ گئے تھے۔

بھارتی ٹیم 1911 میں سسیکس کاؤنٹی کلب میں میچ کے لیے آتے ہوئے


1906میں ایک مرتبہ پھر بھارتی ٹیم بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کو بھی پہلی کوششوں کی طرح ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑا۔

1907سے 1909 کے دوران بغاوت کی لہر اٹھی اور بھارتی نوجوانوں نے برطانوی اہل کاروں اور ان کے مقامی شراکت داروں پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔ برطانیہ میں بھی بھارتیوں کی آزادانہ امد و رفت روکنے کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔


برطانیہ میں اپنی ساکھ مجروح ہوتے دیکھ کر بھارت کے بڑے کاروباری افراد اور عوامی شخصیات نے بھارتی راجاؤں کے ساتھ مل کر بھارتی کرکٹ ٹیم کو لندن بھجوانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس طرح ’’آل انڈیا کرکٹ ٹیم‘‘ معرض وجود میں آئی۔


برطانیہ میں بھارت کی نمائندگی کرنے کے لیے چنے گئے افراد بھی کرکٹ کے بارے میں کم ہی جانتے تھے۔ ٹیم کے کپتان ریاست پٹیالہ کے انیس سالہ راجہ بھپندر سنگھ تھے جو بھارت کی طاقتور سکھ ریاست کے راجہ تھے۔ باقی ٹیم کھیل میں مہارت کے بجائے مذہب کی بنیاد پر چنی گئی تھی، اس میں چھ پارسی، پانچ ہندو اور تین مسلمان کھلاڑی شامل تھے۔


اس ٹیم کی خاص بات بمبے کے دو دلتوں کی شمولیت تھی۔ پلوانکر برادرز، بالو اور شیورام، جو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود اپنے دور کے عظیم کرکٹرز بنے۔

دلت باؤلر بانو پلوانکر


پہلی بھارتی ٹیم سے ظاہر ہے کہ بیسویں صدی میں کرکٹ کے ثقافت اور سیاست پر کیا اثرات پڑے اور ان دونوں کے کھیل پر کیا اثرات تھے۔


پارسیوں کے لیے کرکٹ بحران کے دور میں زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ جب ہندو اور مسلمان پچ پر اور گراؤنڈ کے باہر مقابلے کی دوڑ میں آگے جا رہے تھے، پارسیوں کو اپنا زوال دکھائی دینے لگا۔
جنوبی انڈیا کے مسلمانوں کو بھی کرکٹ کے ذریعے برصغیر میں برطانوی سامراج کے نافذ کردہ پولیٹیکل آرڈر تک رسائی کا زیادہ موقع ملا۔

پہلی بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کے آٹو گراف


یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلی بھارتی ٹیم میں جن چار مسلمان کھلاڑیوں کو شامل کیا ان میں سے تین سرسید احمد خان کی قائم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی سے آئے تھے۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے بنائے اس ادارے کا مقصد ہی مسلمانوں میں مغربی تعلیم پھیلانا تھا۔


اس کے ساتھ ہی کرکٹ وہ آئینہ بنی جس میں ہندو سماج کو ذات پات کے نظام کا بھیانک اور مکروہ چہرہ نظر آنے لگا۔ ذات پات کے نظام کی بحث کے عروج میں دو دلت بھائیوں کی کرکٹ میں مہارت اور کامیابیوں نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے نافذ کردہ نظام پر سوالات کھڑے کیے۔


پلوانکروں کے لیے کرکٹ ان کی عزت اور ناانصافیوں کے خلاف انصاف کا ذریعہ بنی۔ خاص طور پر بالو اپنے اعلیٰ ذات کے حریف کھلاڑیوں میں ایک عوامی شخصیت بن کر ابھرا۔ بالو پلوانکر بھارتی آئین کے خالق بی آر امباڈکر کا ہیرو تھا، جو خود بھی دلت تھے۔


دوسری طرف مہاراجہ بھپندر سنگھ کے لیے سامراجی کھیل اپنے سیاسی مفادات کے حصول کا بڑا ذریعہ تھا۔ راجہ نے ٹیم کی کپتانی کو برطانیہ کی جانب سے اپنے طرز حکمرانی پر پیدا ہونے والے شبہات ختم کرنے کےلیے مہارت سے استعمال کیا۔

بھارتی ٹیم کے کپتان بھپندر سنگھ جب باہرآتے برطانوی پریس کی لائنیں لگ جاتیں


تاج برطانیہ کے وفادار جنہوں نے ٹیم کی تیاری اور فنڈنگ میں مدد کی، کرکٹ لندن میں بھارت کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس کے ذریعے برطانوی آقاؤں کو یقین دلایا گیا کہ بھارت ہمیشہ تاج برطانیہ کا وفادار رہے گا۔


پہلی برطانوی کرکٹ ٹیم کے دورہ برطانیہ اور جنوبی آئرلینڈ کا بنیادی مقصد انہی مقاصد کا حصول تھا۔ اس دورے کا وقت بھی کوئی اتفاق نہیں تھا۔ ٹیم نے 1911 میں برطانیہ کا دورہ کیا۔ یہ وہی سال تھا جب کنگ جارج پنجم کی تاج پوشی کی گئی اور وہ دہلی دربار کے لیے بھارت کے دورے پر آئے۔

بشکریہ ڈاکٹر پرشانت

ڈاکٹر پرشانت یونیورسٹی آف لیسسٹر میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کرکٹ کنٹری: دی ان ٹولڈ ہسٹری آف دی فرسٹ آل انڈیا ٹیم ۔ کے مصنف بھی ہیں۔

x

Check Also

شاہین آفریدی کی اہلیہ انشا کی رخصتی کے جوڑے کی قیمت کیا تھی؟

شاہین آفریدی کی اہلیہ انشا کی رخصتی کے جوڑے کی قیمت کیا تھی؟

قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کی دوسری بیٹی  انشا آفریدی گزشتہ روز  پیا ...

%d bloggers like this: