2 پاکستانیوں نے کس طرح دنیا کے پہلے کمپیوٹر وائرس کو تیار کیا؟

2 پاکستانیوں نے کس طرح دنیا کے پہلے کمپیوٹر وائرس کو تیار کیا؟

اس وقت پائریسی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اب چاہے فلموں کی ہو یا سافٹ وئیرز کی، دنیا بھر میں یہ کام ہوتا ہے، مگر 3 دہائیوں قبل 2 بھائیوں نے سافٹ وئیر پائریسی کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز کیا اور ان کا ہتھیار بنا دنیا کا پہلا کمپیوٹر وائرس۔

یہ 1986 کی بات ہے جب امریکا کی ڈیل وئیر یونیورسٹی کے طالبعلموں کو عجیب کمپیوٹر کے استعمال میں عجیب علامات کا سامنا ہوا، جیسے عارضی طور پر میموری ختم ہوجانا، سست ڈرائیو اور دیگر۔

اور اس کی وجہ دنیا کا پہلا پرسنل کمپیوٹر وائرس بنا جسے اب برین کے نام سے جانا جاتا ہے جو میموری کو تباہ کرنے کے ساتھ ہارڈ ڈرائیو کو سست اور بوٹ سیکٹر میں ایک مختصر کاپی رائٹ میسج چھپا دیتا۔

اوردنیا کا یہ پہلا وائرس 2 پاکستانی بھائیوں باسط علوی اور امجد علوی نے تیار کیا تھا جن کی عمریں اس وقت بالترتیب 17 اور 24 سال تھیں اور وہ لاہور میں ایک کمپیوٹر کی دکان چلارہے تھے۔

اس وقت جب ان بھائیوں نے دریافت کیا کہ ان کے صارفین ان کے تحریر کردہ سافٹ وئیر کی غیرقانونی کاپیاں آگے بڑھا رہے ہیں تو انہوں نے جوابی وار کا فیصلہ کیا۔

اس مقصد کے لیے برین نامی وائرس تیار کیا گیا تاکہ سافٹ وئیر چوری کرنے والوں کو ڈرایا جاسکے مگر ان بھائیوں کا موقف تھا کہ ان کا مقصد کوئی مجرمانہ کام کرنا نہیں تھا۔

2011 میں فن لینڈ کی ایک اینٹی وائرس کمپنی ایف سیکیور کو دیئے گئے انٹرویو میں دونوں بھائیوں نے اس بگ کو ‘دوستانہ وائرس’ قرار دیا جس کا مقصد ‘کسی ڈیٹا کو تباہ’ کرنا نہیں تھا اور اسی وجہ سے وائرس کوڈ پر ان کے نام، فون نمبر اور دکان کا پتا بھی موجود تھا۔

کچھ سال پہلے ایک انٹرویو میں امجد علوی نے بتایا ‘اس کے پیچھے بس یہ خیال تھا کہ اگر پروگرام کی غیرقانونی کاپی بنائی جائے تو وائرس لوڈ ہوجائے’۔

دونوں بھائیوں نے وائرس کے پھیلاﺅ پر نظر رکھنے کے لیے طریقہ کار بھی مرتب کیا ‘ہم نے پروگرام میں ایک کاﺅنٹر رکھا، تاکہ تمام کاپیوں کو ٹریک کرسکے اور معلوم ہوسکے کہ انہیں کب بنایا گیا’۔

دنیا بھر میں پھیل گیا

ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ وائرس اتنا پھیل جائے گا کہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوجائے گا مگر ٹائم میگزین نے ستمبر 1988 میں اس حوالے سے ایک تفصیلی جائزہ رپورٹ جاری کی بلکہ میگزین کور بھی وائرسز کے نام پر تیار کیا جس میں کچھ پیچیدہ پہلوﺅں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

میگزین کے مطابق یہ دونوں بھائی اپنے سافٹ وئیر کی چوری کے حوالے سے جتنے بھی فکرمند تھے، مگر خود دیگر مہنگے پروگرامز جیسے لوٹس 1-2-3 کی کاپیاں فروخت کررہے تھے اور ان کا موقف بھی کافی دلچسپ تھا کہ کمپیوٹر سافٹ وئیر کو پاکستان میں کاپی رائٹ تحفظ حاصل نہیں تو بوٹ لیگ ڈسکس کی تجارت کوئی پائریسی نہیں۔

x

Check Also

دنیا کی 90 بڑی کمپنیوں نے فیس بک پر اشتہارات کا بائیکاٹ کردیا

دنیا کی 90 بڑی کمپنیوں نے فیس بک پر اشتہارات کا بائیکاٹ کردیا

نسل پرستی، تشدد، جھوٹ اور نفرت کے خلاف دنیا کی 90 سے زائد بڑی کمپنیوں ...

%d bloggers like this: