اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت شروع ہونے پر سیکرٹری داخلہ کو روسٹرم پر بلایا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ کو پرزن رولز پڑھنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے کہا میڈیکل بورڈ نےکہا کہ بیماری جان لیوا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا آپ نے میڈیکل بورڈ مقررکیا جس نے کہا کہ نوازشریف کی حالت تشویشناک ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا آپ نے پتا کیا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کی؟ طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہئے،حکومت کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کےنمایندے کوہدایت کی کہ طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست عدالت نہیں آنی چاہیے،حکومت کا اختیار ہے، وزیراعلیٰ پنجاب سےبھی پوچھ کربتائیں کہ وہ ضمانت کی درخواست پرکیاکہتےہیں؟ آپ آدھے گھنٹےمیں چیئرمین نیب سےہدایات لیکرعدالت کوبتائیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا چیئرمین نیب سےپوچھ کر بتائیں ضمانت کی مخالفت کرینگےیابیان حلفی جمع کرائیں گے؟
کیس کی سماعت شرو ع ہونے پر چیف جسٹس نے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے کہا اگر آپ ضمانت منسوخی کی مخالفت کرتے ہیں تو آپ ذمہ دار ہونگے۔
انہوں نے کہا ہم ضمانت خارج کر دیتے ہیں مگر ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ آپ نے میڈیکل بورڈ بنایا ہم نے نہیں۔ جس پر وفاقی سیکریٹری نے جواب دیا ہم اس کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ آپ اس پر فیصلہ کر دیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا حکومت کی ذمہ داری ہے کیوں کہ صوبائی حکومت بھی انہی کی ہے۔ آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالت میں صرف سچ بولیں۔ اگر صوبائی حکومت ضمانت منسوخی کی مخالفت نہیں کرتی تو ای سی ایل سے نام کس نے نکالنا ہے۔