عارف حبیب پاکستان کی معروف ترین سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کے پی ٹی آئی حکومت سے انتہائی مستحکم تعلقات ہیں کچھ لوگ انہیں عمران خان کی سب سے بڑی اے ٹی ایم بھی کہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ حکومت نے گیس سرچارج کی مد میں چند مخصوص کمپنیوں کو 200 ارب روپے کی رقم معاف کر دی۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور پی ٹی آئی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ کہانی 24جنوری 2019 کو شروع ہوئی جب بطور وزیر خزانہ اسد عمر نے کھاد، نجی پاور پلانٹس اور کے الیکٹرک کے حکام سے ملاقات کی۔ جس کے بعد پہلی بار اس سرچارج کو ختم کرنے کی بات ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: “دوسواربکا ڈاکوعمران”ٹویٹئر پر ٹاپ ٹرینڈ
اب سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ سرچارج ن لیگی دور حکومت میں عائد کیا گیا جس کو براہ راست عوام سے بٹورا گیا۔ کمپنیوں کا کام صرف یہ تھا کہ وہ پیسے جمع کریں اور حکومت کو دے دیں۔ اس حوالے سے قانون بھی اسمبلی سے پاس کرایا گیا تاکہ مستقبل میں کوئی کمپنی بے ایمانی نہ کر سکے۔
منصوبے کے مطابق سرچارج لگا اور پیسے جمع ہونے شروع ہوئے۔ 2017 تک 700 ارب اکٹھا ہوا، جس میں سے 50فیصد رقم حکومت کو جمع کرا دی گئی۔
بقایا جات میں ایک حصہ ڈیفالٹ کی صورت میں پہلے ہی منظور کیا جا چکا تھا کیونکہ یہ رقم سرکاری ادارے کی کمپنی نے اکٹھا کیا تھا۔ جس سے حکومت کا تناؤ چل رہا تھا۔
ایسے میں عارف حبیب جو فاطمہ فرٹیلائزر اور پاک عرب فرٹیلائزر کے ڈائریکٹر ہیں ، انہوں نے بھی رقم کی ادائیگی موخر کر دی جو 69 ارب تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قرض قوم کے معاشی مفاد کو سامنے رکھ کر معاف کیا گیا
حالات تیزی سے بدل رہے تھے ایسے میں اینگرو کو بھی یقین ہو گیا کہ اسد عمر ہی نئے وزیر خزانہ ہوں گے جس پر انہوں نے کے الیکٹرک اور نجی پاور پلانٹس کے ساتھ مل کر سرچارج کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ۔
پی ٹی آئی نے مقدمات کی بنیاد پر اس رقم کو ختم کرنے کا عندیہ دیا لیکن ذرائع کے مطابق مسئلہ یہ تھا کہ رقم عوام سے اکٹھی ہو چکی تھی، قانون سازی مکمل تھی، صرف حکومت کو ادائیگی ہونا تھی۔
کمپنیوں کا مقدمہ ہارنا صاف تھا، اس وجہ سے اتنی واضح غلط کام کرنے کی جرات شروع میں نہیں کر سکی۔ پہلے پہل پالیسی اپنائی گئی کہ کمپنی کے مقدمات کو حکومت نیم دلی سے لڑے گی تاکہ عدالتی فیصلہ آئے اور کام ہو جائے۔
فیصلہ کا انتظار ہونے لگا لیکن عدالت کے لئی سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جو رقم پہلے ہی اکٹھی ہو چکی ہے، اس کا کیا ہو گا، کیونکہ پہلے پیسے بجٹ خسارے اور نئے پاور پلانٹ لگانے میں خرچ ہو چکے ہیں، ایسے کوئی فیصلہ حکومت کے لئے بہت بڑا درد سر بن جاتا
ذرائع کے مطابق کراچی میں تاجروں کی ہڑتال روکوانے کے لئے وزیراعظم کی معاشی ٹیم نے عارف حبیب سے رابطہ کیا جنہوں نے جی آئی ڈی سی ختم نہ ہونے پر وزیراعظم سے شکایت کی لیکن پھر وزیراعظم کراچی گئے تو ان سے رابطے ہوا اور تمام معاملات حل کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
تاہم عارف حبیب کراچی میں تاجروں کی ہڑتال رکوانے میں زیادہ مددگار ثابت نہ ہوئے کیونکہ ان کا موقف تھا کہ اتنے خرچے کے باوجود عمران خان ان کے لئے کچھ نہیں کر پا رہے۔
ذرائع کے مطابق موجودہ معاشی حالات کی وجہ سے حکومت شدید دباو میں ہے کسی جانب سے سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ اس وجہ سے حکومت نے دوبارہ اپنے قریبی سرمایہ دار طبقے سے رابطہ کیا۔
انہوں نے صرف دونوں جانب اعتماد کی بحالی کے لئے یہ رقم ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کے پچھلے نقصان کا ازالہ ہو سکے۔ اس وجہ سے فوری طور پر آرڈیننس کے ذریعے پہلی بار موجود قانون کو معطل کر کے یہ کام کیا گیا ۔
One comment
Pingback: Dunya Today