اس دنیا میں کامیابی دراصل انسان کی اپنے دائرہ کار اور عمل میں رہتے ہوئے اُس کوشش اور کاوش کا نام ہے کہ جہاں اُسے زندگی گذارنا ایک میکانکی عمل نہیں لگتا بلکہ وُہ شعوری جدوجہد ہوتی ہے جس میں وُہ کسی قابل قدر مقصد کو اپنی ہمت اورجوش و جذبے کیساتھ اپنے عمل کے ذریعے حاصل کرے۔انسان کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار ہے اسی لئے مایوس نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے
اسلام میں تمام تخلیقات پر سوچنے کا حکم دیا گیاہے تاکہ فرد اللہ تعالیٰ کے خیر و برکت کے سرچشموں کو پہچان لے قرآن حکیم نے انسان کواپنی ذات پر سوچنے کا حکم دیا ہے اسے سیلف نالج اور تمام علوم کا سرچشمہ قرار دیا جاتا ہے
اس عمل کے بعد اُسے عزت ملے،مقام ملے، شہرت ملے، پیسہ ملے یا سکون یہی اس کا وُہ انعام ہے جو قدرت اُسے ایک اہم مقصد کو حاصل کرنے اور اس غیر معمولی کام کو سرانجام دینے کی وجہ سے عطا کرتی ہے۔آج کی دنیا میں ہر کوئی دنیا میں اعلیٰ کامیابی کا خواہشمند ہے ۔مگر اللہ کریم کی آخری کتاب قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقی کامیابی تو درحقیقت آخرت میں کامیابی ہے۔ اِس اخروی کامیابی کی بنیاد دنیاوی زندگی میں ہی رکھنا ہوتی ہے۔قرآن حکیم نے جہاں آخروی کامیابی کے اصولوں کی وضاحت کی ہے وہیں دنیا میں کامیابی کے اصولوں کو بھی بیان کیا ہے تاکہ قیامت تک آنے والے انسان اس کتابِ مبین سے نہ صرف اُخروی زندگی میں کامیابی حاصل کر لیں بلکہ اس دنیا میں بھی کامیاب و کامران ہو کر دنیا میں روش مثال بن سکیں۔ذیل میں قرآن ِمقدس میں بیان کردہ سات(7) ابدی اصولوں کی وضاحت کی جارہی ہے کہ جن میں سے صرف اگر ایک کو بھی مان کر اپنے تمام اعمال کی بنیاد بنا لیا جائے تو دنیاوی کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔اور آخرت میں اعلیٰ کامیابی اور اللہ کریم کی خوشی بطوربونس حاصل ہو گی ۔اگر ان تمام پر عمل کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت فرد کو کامیاب ہونے سے روک نہیں سکتی۔ ان اصولوں پر عمل کر کے دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا کہ فرد کو سُنہری کامیابی نہ ملے۔
کامیابی کا پہلا قرآنی اصول:انعام یافتہ لوگو ں کی پیروی کرو قران کریم میں پہلی ہی سورت میں جہاں فرد کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق کی دعا سکھلائی گئی ہے وُہیں اُسے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وُہ دعا کرے کہ اللہ کریم اُسے اُن لوگوں کے راستے پر چلا دے جن پر اُس نے انعام کیا (سورۃالفاتحہ ۔آیت 6)کیونکہ انعام یافتہ کے راستے پر چلنے سے ہی دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطاکی جاتی ہیں۔ دنیا کے انعام یافتہ لوگوں جیسا بن جائیں یعنی ان جیسا جینا شروع کر دیں دنیا کی بھلائیاں ، خیریں اور فضل عطا کر دئے جائیں گے۔ آخرت میں کامیاب لوگوں جیسے کہ انبیاء، صدیقین، صُلحاء اور شہداء جیسا جینا شروع کر دیں آخرت میں ان کا ساتھ عطا کر دیا جائے گا۔ آپ جس میدان َعمل کے بھی ہیرو یا انعام یافتہ بننا چاہتے ہیں تو اُس میں پہلے سے موجود انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنا شروع کر دیں ۔کامیابی دوڑتے ہوئے آپ کے پاس پُہنچ جائے گی۔
کامیابی کا دوسرا قرآنی اصول:ہر تنگی کے بعد آسانی ہے قرآن نے بیان کیا ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور پھر اس بات کو دوبارہ بتا کر شک کرنے والوں کو قیامت تک خاموش کر دیا گیا ہے کہ بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی ہے(سورۃ الانشراح۔آیت 5-6)۔ یعنی زندگی میں تکلیفیں اور مشکلیں پہلے آئیں گی اور آسانیاں بعد میں آپ کے گھر کا راستہ دیکھیں گی۔ فرد کو دنیا میں پہلے مشکل کام کرنا پڑتا ہے پھر اُسے آسانیاں عطا کی جاتی ہیں۔ کسان کو پہلے ہل چلانا ہے، فصل کاشت کرنا ہے ، اسے ہر طرح کی بُری چیزوں جیسے نقصان دینے والے دیگر جانداروں اور ناسازگار حالات سے بچاتا ہے۔مہینوں کی انتھک محنت کے بعد ہی اُسے بھرپور فصل یعنی آسانیاں عطا کی جاتی ہیں۔ طالب علم کو پہلے راتیں جاگ جاگ کر محنت کرنا ہوتی ہے تب جا کر اچھے نتیجے کی صورت آسانی ملتی ہے۔ یعنی دنیا میں کسی بھی آسانی کی قیمت پہلے محنت ، تنگی اور مشکل کی صورت کاٹنا ہوتی ہے تب جا کر کہیں آسانیاں نصیب ہوتی ہیں۔رسول اللہ ﷺکی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ تکلیفیں یعنی مکی زندگی پہلے آئے گی۔ لگاتار اور مسلسل محنت کا نتیجہ کچھ بڑا نہ ہو گا مگر پھر انعامات کا دور یعنی مدنی زندگی شروع ہو گی۔ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ مکی اور مدنی زندگی ہر فرد کی زندگی میں آتی ہے۔یعنی ہر فرد کو تنگی کے بعد ہی انعامات کے دور میں داخل کیا جاتا ہے۔مگر مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب ہم اپنی مکی یعنی تکلیف اور تنگی کے دور میں اپنا موازنہ اُن لوگوں سے کرتے ہیں جن کا انعامات یعنی مدنی زندگی کا آغاز ہو چُکا ہوتا ہے۔ ہر فرد کو پہلے محنت اور پھر عطا اور انعام کے عمل سے گذرنا پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کے مکی دور میں صبر، ہمت، استقلال، اور ثابت قدمی سے محنت کریں اور اللہ پر یقین رکھیں کہ آپ کا مدنی دور بھی آئے گا ۔جب آپ کی مثالیں دی جائیں گی اور آپ پر فضل کی بارش ہو کر رہے گی۔
کامیابی کا تیسرا قرآنی اصول :مایوس نہ ہوں
خدا کی کتاب قرآن حکیم کا کہنا ہے کہ انسان کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنا ہی سب سے بڑا شیطانی ہتھیار ہے۔بی کاتیسرا قرآنی اصول:مایوس نہ ہوںاسی لئے تو حکم دیا گیا ہے کہ مایوس نہ ہوں(سورۃ الزمر ۔آیت 39) اور مایوسی کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں نفسیات دان اِس حقیقت کو سائنسی طور جان چکے ہیں کہ فرد بعد میں مرتا ہے پہلے اُس کی اُمیدیں اور آس دم توڑ دیتی ہیں۔ تمام ذہنی امراض کی بنیادوں میں مایوسیوں اور نا اُمیدیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہوتے ہیں ۔ قوم یا فرد سے اُمید چھین لی جائے تو پھر جینے یا کسی بھی کام کو سرانجام دینے کاکیا جواز رہ جاتا ہے۔ جینے کی اُمنگ اور کام کرنے کی ترنگ صرف امید کے دم پر ہی تو قائم رہتی ہیں۔امیدیں ہی تو حوصلوں کو جوان رکھتی ہیں اور ہمتوں کو عزم ِ نو عطا کرتی ہیں۔سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی اُمید کا دامن تھامے رکھنا ہی تو زندگی کی علامت ہے ۔اللہ کریم کا راستہ اُمید کا راستہ ہے اور شیطان کا راستہ مایوسی کا ہے۔خدا پر کامل بھروسہ اور توکل ہمارے وُہ ہتھیار ہیں کہ جو مایوسی کی ہر شیطانی چال کو ناکام بنا دیتے ہیں۔ پریشانیاں، بد گمانیاں، مایوسیاں، اضطراب اور فکریں اللہ کریم پر یقین کی سرحدوں سے کہیں بہت پیچھے کی وُہ بھول بھالیاں ہیں جن سے عافیت سے نکلنے کا کامل علاج اور شفا کا توکل علیٰ اللہ میں موجود ہے۔ دیر بس عمل کی ہے۔ آزما کر دیکھ لیں کیونکہ خداکا ایک اصول یہ بھی ہے کہ وُہ فرد پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (سورۃ البقرہ۔آیت 286)
کامیابی کاچوتھا قرآنی اصول:سوچو اور تدبر کرو تفکر و تدبر کرنا قرآن کا وُہ حکم ہے کہ جس میں کہیں اپنی ذات پر سوچنے کا حکم دیا گیا ہے جسے سیلف نالج اور تمام علوم کا سرچشمہ قرار دیا جاتا ہے۔ تو کہیں خدا کی دیگرتخلیقات پر سوچنے کا حکم ہے تاکہ سوچنے کے اس عمل کے نتیجے میں فرد دنیا اور آخرت میں ہر خیر و برکت کے سرچشمے یعنی اللہ تعالیٰ کو جان اور پہچان لے (سورۃ الروم ۔آیت 30) ۔ اسی لئے تو قرآن میں سینکڑوں مقامات پر سوچنے کا کہا گیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں تفکر و تدبر فرد کو سطحی فرد کی بجائے گہرائی سے غور و فکر کرنے والا فرد بنا دیتا ہے۔ جس معاملے میں بھی وسعت اور گہرائی سے تدبر و تفکر کیا جائے گا اُسی سمت میں خدا فرد پر نئی نئی جہتیں ، تصورات، تناظرات اور تعلیمات فرد پر آشکار کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں نئے نئے علوم اور مصنوعات، اور خدمات وُجود میں آنے لگتی ہیں جو فرد کی نہ صرف اِس دنیا میںکامیابی کو یقینی بناتی ہیں بلکہ آخرت میں اس کی دائمی کامیابی کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ یوں فرد بے مقصدیت کی بجائے اعلیٰ مقصد کی جانب راغب ہو جاتا ہے ۔گہری سوچوں اور رفکر کی بدولت ہی تو مشکلوں کے حل ملتے ہیں، تخلیقی سوچ پروان چڑھتی ہے، نئے مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے، بہتر فیصلہ سازی میں مدد ملتی ہے، قوتِ مشاہدہ و مطالعہ بہتر ہوتی ہے اس لئے آپ اپنے میدان ِعمل میں تفکر و تدبر کو اپنا شعار بنا لیں کیونکہ صرف اُس صورت میں ہیں فطرت آپ پر اپنے وُہ راز کھولے گی جو آپ سے پہلے کسی پر آشکار نہیں کئے گئے ہوں گے۔
کامیابی کاپانچواںقرآنی اصول:اپنی حالت خودبدلو ہر فرد اور قوم کو اپنی حالت خود بدلنا ہو گی۔ کیونکہ اللہ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہ بدلے(سورۃ الرعد۔ آیت 10) ۔اپنی حالت کے بدلنے کے لئے خود ہی میدان ِعمل میں اُترنا ہو گا کوئی غیبی مسیحا کہیں سے نازل نہیں ہو گا جو کسی فرد یا قوم کی حالت بدل کر رکھ دے۔ صرف ڈھونڈنے والوں کو عطا کیا جاتا ہے اور مانگنے والوں کو دیا جاتا ہے۔مدد بھی اُن کی کی جاتی ہے جو اپنی پوری کوشش کر چکے ہوں۔ بے عمل لوگوں کے لئے کہیں بھی کچھ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو مفلوج اور معطل بنا کر بیٹھے رہنا خدا پر توکل نہیں بلکہ اُس کی تحقیر ہے۔ اپنے موجود ذرائع، توانائی، ہمت ، طاقت اور ذہانت کے استعمال کے بعدمثبت نتائج کیلئے خدا کی مدد کا منتظر ہونا ہی حقیقی عبدیت کا خوبصورت ترین اظہار ہے۔ خدا کر برگزیدہ بندوں اور یہاں تک کہ رسولوں کے لئے بھی یہی حکم تھا اور عامتہ الناس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اپنی پوری کوشش پہلے کی جائے پھر عجز کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے مدد مانگی جائے۔ بیرونی مدد کے منتظروں کے ہاتھ سوائے ناکامی اور مایوسی کے کبھی کچھ نہیں آتا۔ اکثر لوگ قرآنی مفہوم ِصبر سے ناآشنائی کی بنیاد پر بے عملی اور بیٹھے رہنے کو صبر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ صبر میں بھی اپنی پوری کوشش کرنا واجب اور لازم ہے۔ دعا کرنے کے لئے بھی لازم ہے کہ پہلے تمام ممکنہ اسباب کو پورا کیا جائے پھر یکسوئی اور استقامت سے اللہ سے مانگا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ عطا کیا جائے گا تو انشاء اللہ آپ کو کبھی مایوس نہیں لوٹا یا جائے گا۔ بہتر ہو گا تو فوری طور پر عطا کر دیا جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آخرت میں تو آپ اِسے اپنے سامنے موجود پائیں گے اور اللہ کے زیادہ شکرگذار ہو ں گے کہ اِسے آپ کو اَب عطا کیا جا رہا ہے۔
کامیابی کاچھٹاقرآنی اصول:کوشش کرو انسان جس کی کوشش کرتا وہی پاتا ہے(سورۃ النجم۔ آیت 39)۔مگر کوشش کرنا اور جس سمت میں ہم نتائج چاہتے ہیں اس کی بھرپور کوشش کرنا ہم پر لازم ہے۔ قرآن میں بیان کردہ یہ اصول بھی ہمیں اس بات کی تحریک و ترغیب دیتا ہے کہ فوری طور پر میدان ِ عمل میں آیا جائے اور جس کے کے نتائج کی خواہش ہے ویسے ہی عمل کئے جائیں۔ اس آیت میں خدا نے بہت واضح انداز میںبتا یا ہے کہ ہمیں فطرت نے آزاد پیدا کیا ہے ۔بقیہ دنیا کی تمام غلامیاں انسانی ذہن کی خودساختہ ہیں جنہیں پہلے صرف ذہنوں میں توڑا جاتا ہے پھر عملی زندگی میں آزادی حاصل ہوتی ہے۔ نہ ہم فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور نہ مقدر کے ہاتھوں میں ایک کھلونا جسے جب چاہے جس طرف چاہے موڑ دیا جائے بلکہ ہم اپنے مقدر کو تراشنے والی وُہ مخلوق ہیں جنہیں اپنا تقدیر بنانے میں سہاروں کی نہیں حوصلوں اور جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔دنیا میں ایک انسان کے لئے سب سے بدترین غلامی اپنی عادتوں اور خواہشوں کی غلامی ہے جس میں فرد کااپنی ذات سے سھی اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک ربوٹ کی سی ہو جاتی ہے جو ایک خود کار اور میکانکی طریقے سے چلتا ہے۔ وُہ اپنی عادتوں کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔ کوشش کرنے سے قبل یہ بھی لازم ہے کہ آپ اپنی سمت اور نتائج کا بھی تعین کر لیں یعنی آپ کو پتہ ہو کہ آپ کس سمت میں اور کیوں جا رہے ہیں؟ آج کل کے عہد میں مقاصد کا تعین اور اس کی منصوبہ بندی کے لئے اس سے بہتر راہنماء اصول کوئی اور ممکن نہیں ہے۔ یعنی کچھ کرنے سے پہلے جاننا کہ نتائج کیا ہوں گے نہ صرف اعلیٰ سوچ کا مظہر ہے بلکہ بڑی کامیابی کی جانب پہلا قدم بھی ہے۔
کامیابی کاساتواں قرآنی اصول: اعمال کو احسن طریقے سے کرو ترجمہ: خدا نے زندگی کو بنایا ہی اسی لئے ہے کہ جان سکے کہ کون احسن عمل یعنی اچھے کام کرتا ہے (سورت الملک )۔احسن عمل کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالیں اور اس قدر شاندار اور اعلیٰ طریقے پر سرانجام دینا کہ کام کا فی نفسہ حق ادا ہو جائے اسے احسان کے درجے پر کیا جائے۔ یہ امور چاہے دینی ہو یا دنیاوی ان کو اس قدر اچھے طریقے سے کیا جائے کہاس سے مالکِ کائنات خوش اور راضی ہوجائے تو اس سے بہتر درجہ کی Excellenceکیا ہوگی؟ یعنی چاہے نماز ادا کرنا ہو یا کاروبار کرنا ، انہیںایسے انداز اورطریقے کیا جائے کہ سب بے ساختہ پکار اُٹھیں کہ شائد اس سے بہتر اطور پر اس کام کوکیاجانا ممکن ہی نہ تھا تو ہمیں یقین ہو جانا چاہئے کہ ہم نے یہ کام احسن انداز میں کئے ہیں۔ کسی بھی کام میں حسن و خوبی جس قدر بڑھتی چلی جائے گی اُسی قدر اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ہر کام کو دل و دماغ حاضر کر کرکے روح کی گہرائیوں سے سرناجم دینے سے خدا اور اس کے بندوں کی رضا کے ساتھ ساتھ دنیا میں کامیابی لازم ہو جاتی ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے وُہ ہمیں کامیابی کے ان ساتوںقرآنی اصولوں پر چلنے کی تو فیق دے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکیں ( آمین)