عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے کیسز اب اس وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ چین کے باہر رپورٹ ہو رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم نے جنیوا میں سفارتکاروں کو بتایا کہ ‘گزشتہ روز وائرس کے جتنے نئے کیسز چین کے باہر رپورٹ ہوئے ان کی تعداد پہلی بار چین سے زیادہ تھی۔’
اقوام متحدہ کی ہیلتھ ایجنسی کے مطابق منگل کے روز چین میں کورونا وائرس کے 411 نئے کیس سامنے آئے جبکہ اس سے باہر یہ تعداد 427 رہی۔
دنیا بھر کی حکومتیں اٹلی، ایران اور جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے تیزی سے سامنے آنے والے کیسز کے بعد اس کی روک تھام کی کوششیں کر رہی ہیں
ٹیدروس ایڈہانوم نے کہا کہ ‘ان ممالک میں کیسز کی اچانک بڑھتی ہوئی تعداد شدید تشویش کا باعث ہے، جبکہ عالمی ادارہ صحت کی ٹیم رواں ہفتے ایران کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لے گی۔’
چین میں اگرچہ سامنے آنے والے نئے کیسز اور اس سے ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے لیکن وہ اب بھی وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔
ٹیدروس ایڈہانوم کا کہنا تھا کہ بدھ کی صبح تک چین میں کورونا وائرس کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 78 ہزار 190 ہوچکی تھی، جبکہ 2 ہزار 718 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر 37 ممالک میں کورونا وائرس کے 2 ہزار 790 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں 44 افراد ہلاک ہوئے۔
تاہم ڈبلیو ایچ او یہ کہہ چکا ہے کہ چین میں 2 فروری کو سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے اور اموات ہوئیں جس کے بعد اس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ چین سے باہر بڑی تعداد میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد اسے ‘عالمی وبا’ قرار دینے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ‘کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دینے میں ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنے کے بعد یہ اشارہ ملے گا کہ ہم اس وائرس پر قابو نہیں پاسکتے۔’
سربراہ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ‘ہم یہ لڑائی درست اقدامات اٹھا کر جیت سکتے ہیں۔’
دوسری جانب ایران میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 19 ہوچکی ہے، جو چین کے بعد سب سے زیادہ اموات ہیں۔
ایران میں اب تک کورونا کے 139 کیسز کی تصدیق کی جاچکی ہے تاہم صدر حسن روحانی ایرانی شہروں کو فوری طور پر قرنطینہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران میں وائرس پر قابو پانے میں ایک سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
گزشتہ روز ایران کے نائب وزیر صحت اور ایک رکن پارلیمنٹ میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
وزارت صحت کے ترجمان قیانوش جہانپور نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ غیر ضروری سفر بالخصوص کورونا سے ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں قُم اور گیلان کے سفر سے گریز کریں۔
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔
کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔
ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔