یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زمین میں زندگی کے لیے آکسیجن کی اہمیت کتنی زیادہ ہے، اس کی بدولت ہم سانس لیتے ہیں، ہمارے خلیات کام کرتے ہیں اور اس کے بغیر یقیناً قیامت جیسا منظر ہی ہوگا۔
درحقیقت زمین پر ہر طرح کے کثیر خلیاتی یا آسان الفاظ میں جاندار لاکھوں یا کروڑوں سال سے آکسیجن کی بدولت کی زندہ رہے ہیں۔
اب گہری سانس لیں کیونکہ اب ایک ایسے ننھے طفیلی جاندار Henneguya salminicola کے بارے میں جان لیں جو سامن مچھلی کے مسل ٹشو کے اندر رہتا ہے اور اس میں 10 سے بھی کم خلیات ہوتے ہیں۔
جیلی فش جیسا یہ جاندار آکسیجن کے بغیر زندہ رہتا ہے اور بظاہر یہ پہلا کثیر خلیاتی ‘جانور’ دریافت ہوا ہے جو زندگی کے لیے انتہائی ضروری آکسیجن کے بغیر بھی زندہ رہ پاتا ہے۔
محققین کے مطابق ایروبک عمل تنفس (پودے اس طرح آکسیجن حاصل کرتے ہیں جس کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کی جاتی ہے مگر اس عمل میں آکسیجن سے سانس لینے کی ضرورت نہیں ہوتی) کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ جانوروں میں ہوتا ہے، مگر اب ہم تصدیق کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں۔
جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع تحقیق میں اس طفیلی جاندار کے تمام جینز کا جائزہ اور سیکونس بنایا گیا اور دریافت ہوا کہ اس میں وہ ڈی این اے مشینری موجود نہیں جو نظام تنفس کے لیے ضروری ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ درحقیقت اس میں مائی ٹو کانڈریا (خلیات میں پائے جانے والا ایسا جسیمہ جس میں تنفس اور توانائی کی پیدائش کے خامرے ہوتے ہیں) ہی موجود نہیں، جو توانائی بنانے کے لیے آکسیجن کو استعمال کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آکسیجن کے بغیر زندہ رہنے والے پہلے جاندار کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی کیونکہ سائنسدان تو بس مختلف جانداروں کے جینوم کی جانچ پڑتال کررہے تھے اور اس دوران جب اس طفیلی جاندار کے مائی ٹو کانڈریا جینز کو تلاش کیا گیا تو انہیں کچھ بھی نہیں ملا۔
اس تحقیق میں شامل تل ابیب یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہماری دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتفائی عمل حیرت انگیز بھی ہوسکتا ہے، ایروبک عمل تنفس توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے اور ہم نے اب تک ایسا جانور نہیں دیکھا جس نے اس اہم ترین ذریعے کو چھوڑ دیا ہو۔
مگر سائنسدان تاحال یہ وضاحت نہیں کرسکے کہ آخر یہ جاندار توانائی کیسے حاصل کرتا ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ سامن مچھلی کے خلیات سے آکسیجن کو حاصل کرتا ہوگا یا یک خلوی جراثیموں سے ملتے جلتے طریقے سے نشوونما پاتا ہوگا جس کے بارے میں ماضی میں مختلف تفصیلات سامنے آچکی ہیں۔