مشرق کی طرح مغرب میں بھی اونٹنی کے دودھ کے استعمال کا رحجان جاری ہے لیکن ناقدین کا اصرار ہے کہ انسانوں کی بجائے جانوروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں۔ تاہم اب ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اونٹنی کا دودھ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اونٹنی کا دودھ ، دہی اور مکھن وغیرہ اپنی زبردست غذائیت کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں وٹام سی، فولاد، کیلشیئم، انسولین اور پروٹین کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔
اس کے لیے ماہرین نے دودھ میں موجود چکنائیوں پر تحقیق کی ہے۔ اگرچہ ہمارے جسم میں اندرونی جلن اور سوزش درحقیقت اس وقت ہوتی ہے جب جسم اندرونی جراثیم سے لڑ رہا ہوتا ہے لیکن موٹاپے اور ذیابیطس کی کیفیت میں اندرونی جسمانی جلن ایک مسلسل وبال بن جاتی ہے۔
جسمانی چکنائیوں میں موجود ایک خاص قسم کا خلیہ (سیل) میکروفیج کہلاتا ہے جو اندرونی سوزش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کارڈف میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں بایومیڈیکل سائنسس کے پروفیسر کائتھ مُور اور ان کے ساتھیوں نے چکنائی میں موجود میکروفیج کو اونٹنی کے دودھ کے لائپڈز(ایک طرح کی چکنائی) میں ملایا اور ان کا بغور مطالعہ کیا۔
کئی تجربات کے بعد ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اونٹ کے دودھ کی چکنائیوں نے میکروفیج کو کم کیا بلکہ جلن پیدا کرنے والے ایک پروٹین ’انفلیمیسوم‘ کو بھی بہت کم کردیا۔
اگر تجربہ گاہ کے بعد انسانوں پر یہ کارآمد ہوجاتے ہیں تو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں پیدا ہونے والی جلن اور سوزش کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی مناسبت سے اونٹنی کے دودھ کو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اونٹنی کے دودھ کے بے تحاشہ فوائد اور بھی ہیں جو اس کے باقاعدہ استعمال سے حاصل ہوسکتے ہیں۔