معروف سماجی کارکن و خواتین کے حقوق کی علمبردار طاہرہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ’خواتین آزاد پیدا ہوئیں، انہیں بطور والدہ، بہن، بیٹی یا بیوی اپنے حقوق مرد سے کشکول لے کر مانگنے کی ضرورت نہیں’۔
طاہرہ عبداللہ نے نجی ٹی وی سما کے پروگرام ’نیوز بیٹ‘ میں ڈراما نگار خلیل الرحمٰن قمر اور معروف صحافی اویس توحید کے ساتھ شرکت کی اور پروگرام کے دوران صنفی مساوات اور خاص طور پر ڈراموں میں خواتین کو کمزور دکھانے کے مسئلے پر بحث کی۔
پروگرام کے آغاز میں ڈراما نویس خلیل الرحمٰن قمر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ہمیشہ ہی مضبوط خواتین کے کردار تشکیل دیے ہیں، وہ خواتین کی خودمختاری کے سب سے بڑے عملبردار ہیں تاہم انہوں نے صرف حالیہ ایک ہی ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ میں خاتون کو کچھ منفی انداز میں دکھایا۔
ڈراما نویس نے کہا کہ کئی واقعات میں مرد، خواتین کو ذلیل کرتے ہیں اور ایسے واقعات میں ہم مرد حضرات کو برا بھلا بھی کہتے ہیں اور ایسے ہی واقعات بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین بھی مرد حضرات کے ساتھ غلط کرتی ہیں تاہم ایسے واقعات پر ہم نہیں بولتے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے دلیل دی کہ انہوں نے ’منجلی، انوکھی اور پیارے افضل‘ جیسے ڈرامے میں ان کے خاتون کردار کبھی کمزور نہیں ہوتے اور نہ ان کے ڈراموں میں خاتون کو روتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈراما نویس کا کہنا تھا کہ وہ مرتبے میں خواتین کو مرد سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں بلکہ مرد پر یہ حکم بھی ہے کہ وہ اپنی خاتون کو کما کر کھلائے گا ہاں البتہ جسمانی طور پر مرد کچھ زیادہ طاقتور ہے اور وہ اسی وجہ سے اپنی طاقت کا اظہار بھی کرتا ہے۔
ڈراما نگار کے مرد کے جسمانی طور پر طاقتور ہونے اور اس طاقت کے اظہار کے کمنٹس پر پروگرام اینکر نے طاہرہ عبداللہ سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ’فیمزم‘ ایک انقلابی نطریہ ہے جس کے تحت عورت بھی ایک انسان ہے۔
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ عورت کی عزت کسی مرد کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے اندر ہوتی ہے اور اسے اپنے حقوق کسی مرد سے مانگنے کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے حقوق لے کر پیدا ہوتی ہے۔
سماجی رہنما و خواتین کے حقوق کی علمبردار کا کہنا تھا کہ خواتین کی عزت، وقار اور ان کی خودمختاری و آزادی کو آئین پاکستان میں بھی تحفظ دیا گیا ہے اور خواتین حقوق اپنے وجود میں ساتھ لے کر پیدا ہوئی ہیں انہیں کسی بھی مرد سے حقوق کشکول میں لینے کی ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور دوست ایک خاتون ہونے کے ناتے انسان ہے اور اسے انسان تسلیم کیا جائے۔
طاہرہ عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ عورت کے حیا اور وفا سے متعلق پیمانے بھی مرد حضرات نے ہی طے کر رکھے ہیں اور یہ پیمانے طے کرنے والا وہ شخص ہے جسے خود عورت نے جنم دیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہی مرد اس کے ساتھ ظلم کرکے اسے ’کوٹھے‘ پر بٹھا دیتا ہے اور وہاں بھی اس کے پاس ’مرد‘ ہی جاتے ہیں۔
طاہرہ عبداللہ کی جانب سے ’فیمزم‘ پر بات کرنے اور ’مرد‘ حضرات کے ذکر پر طویل بحث کرنے پر ڈراما نگار خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ’مرد‘ کے ذکر پر سماجی رہنما کو غصہ آ جاتا ہے۔
خلیل الرحمٰن قمر نے جذباتی انداز میں سوال اٹھایا کہ اگر خواتین کو مرد حضرات سے حقوق نہیں چاہئیں تو پھر خواتین پلے کارڈز اٹھا کر حقوق کیوں مانگتی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرے کرنے والی خواتین ہاتھی اور گھوڑوں سے نہیں بلکہ مرد حضرات سے ہی حقوق مانگتی ہیں اور وہ ایک بار پھر کہہ رہے کہ ’خواتین کو پتا ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں‘۔
خلیل الرحمٰن قمر نے جذباتی انداز میں کہا کہ خواتین، مرد حضرات سے ہی حقوق مانگ رہی ہوتی ہیں اور ان کے حصے سے ہی حقوق مانگ رہی ہوتی ہیں اور وہ انہیں ملیں گے۔
ڈراما نویس نے کہا کہ اس حساس موضوع پر ایک گھنٹے کا پروگرام ناکافی ہے اس لیے اس معاملے پر بحث کرنے کے کئی گھنٹوں کا پروگرام ہونا چاہیے اور وہ ٹی وی پر نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ٹی وی پر سب باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔
پروگرام میں صحافی اویس توحید نے بھی خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ آج بھی جدید دور میں پاکستان میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اور ابھی تک خواتین کاروکاری میں قتل کی جا رہی ہیں۔
اویس توحید کی جانب سے اپنے ڈراموں اور حالیہ انٹرویوز میں دیے گئے بیانات پر تنقید کے بعد خلیل الرحمٰن قمر نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ صحافی اور سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے ان کے ڈرامے نہیں دیکھے اور نہ ہی انہوں نے انہیں پڑھ رکھا ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ چند مہینوں میں خلیل الرحمٰن قمر کو ’میرے پاس تم ہو‘ ڈرامے میں خاتون کو منفی کردار میں دکھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور خود بھی وہ انٹرویوز میں قدرے متنازع بیانات دے چکے ہیں۔
اکتوبر 2019 میں انہوں نے ایک انٹرویو میں متنازع بیان دیا تھا کہ ‘وہ ہر عورت کو عورت نہیں کہتے، ان کی نظر میں عورت کے پاس ایک خوبصورتی ہے اور وہ اس کی وفا اور حیا ہے، اگر وہ نہیں تو ان کے لیے وہ عورت ہی نہیں’۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘اگر خواتین برابری کی بات کرتی ہیں تو وہ بھی مل کر مردوں کا گینگ ریپ کرلیں’، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔