گزشتہ ماہ ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ معدے میں تیزابیت کے لیے استعمال ہونے والی دوا ‘رینیٹیڈائن’ سے تیار ہونے والی تمام ادویات پر ان کے سائیڈ افیکٹس کی وجہ سے پاکستان بھر میں پابندی لگادی گئی تھی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) اس دوا پر اس وقت پابندی لگائی جب امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (یو ایس ایف ڈی اے) کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ دوا کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔
اور اب خبر سامنے آئی ہے کہ بلڈ پریشر، گردوں اور دل کے فیل ہونے کے علاج میں استعمال ہونے والی بعض ادویات استعمال کرنے والے افراد میں خودکشی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔
کینیڈا میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا کہ بلڈپریشر، ذیابیطس، گردوں اور دل کے فیل ہونے کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’ انجیوٹنسن’ کو استعمال کرنے والے افراد میں خودکشی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔
سائنس جرنل ’جاما نیٹ ورک اوپن‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی ’یونیورسٹی آف اونٹاریو‘ کے ماہرین کی جانب سے ’انجیوٹنسن’ دوا لینے والے افراد کے امراض کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ دوا استعمال کرنے والے افراد میں خودکشی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ماہرین نے مذکورہ دوا لینے والے 3 ہزار 856 افراد کی بیماریوں اور مسائل کا جائزہ لیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ اس دوا کے بعض افراد پر خطرناک نتائج ہوتے ہیں۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے بلڈ پریشر، گردوں اور دل کی بیماریوں سمیت ذیابیطس کی وجہ سے دی گئی دوا ’انجیوٹنسن’ سے تیار ہونے والی بعض ادویات استعمال کرنے والے 964 افراد نے خودکشی کی۔
ماہرین کے مطابق خودکشی کرنے والے افراد نے دوا کے استعمال کے ابتدائی 100 دنوں کے اندر خودکشی کی، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر دوا کے غلط اثرات مرتب ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے لیے استعمال ہونے والی دوا کھانے سے ہی لوگوں میں خودکشی کے رجحانات پیدا ہوئے۔
تاہم اس بات کا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس دوا کے خطرناک منفی اثرات نہیں ہوتے۔
ماہرین نے ’انجیوٹنسن’ سے تیار ہونے والی تمام ادویات پر مزید تحقیق کے لیے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ دوا کے نتائج پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے جن افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا انہوں نے 1995 سے 2015 تک بلڈ پریشر، ذیابیطس، گردوں اور دل کی بیماریوں کی وجہ سے مذکورہ دوا استعمال کی تھی۔
تاہم رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ’انجیوٹنسن’ دوا لینے والے افراد نے کس سال میں خودکشی کی۔