تحریک انصاف کے سینئر رہنما نعیم الحق کی جانب سے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی کے خلاف ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔
جلتی پر تیل کا کام عارف حمید بھٹی نے کیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی اندرونی ای میلز جاری کر دی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعیم الحق کی پارٹی پر گرفت کتنی مضبوط ہے اور پارٹی کے رہنما ان سے کس قدر نالاں رہتے ہیں۔
عارف حمید بھٹی نے ای میلز کی پوری سیریز جاری کی جس کا آغاز جنوری دو ہزار بارہ میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ کراچی سے ہوتا ہے جب جاوید ہاشمی صاحب نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ای میلز کے مطابق وزیراعظم کے دورہ کراچی پر تحریک انصاف ویمن ونگ نے ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ رکھا تھا جس میں پارٹی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے ساتھ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے نئے ارکان کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر نعیم الحق کی سینئر رکن زہرا آپا سے تلخ کلامی ہوئی۔ (واضح رہے کہ بعد میں زہرا آپا کو قتل کر دیا گیا جس کا الزام ایم کیو ایم پر لگایا جاتا ہے)۔
اس پر ویمن ونگ کی صدر فوزیہ قصوری نے ڈاکٹر عارف علوی کو ای میل میں شکایت کی۔ اور کہا کہ وہ نعیم الحق کے رویئے پر افسردہ ہیں۔
ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پریس کانفرنس اور فنڈریزنگ تقریب سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا جس پر فوزیہ قصوری نے ایک اور ای میل کی جس میں لکھا کہ آپ نے اور نعیم الحق نے فنڈریزنگ کی شدید مخالفت کی۔ اگر آپ (عارف علوی) یہ کہتے ہیں کہ آپ کو فنڈ ریزنگ تقریب کا علم نہیں تھا تو یہ اس کی وجہ ویمن ونگ سے رابطوں کا فقدان ہے۔ خواتین سے پارٹی کے مرد ارکان کا رویہ جارحانہ ہے۔ فوزیہ قصوری نے لکھا کہ وہ عارف علوی کی بے عزتی کرنا نہیں چاہتی بلکہ نظرانداز کیے جانے پر شرمندگی محسوس کر رہی ہیں۔ اگر آپ خواتین ونگ کی ارکان کو اپنے گھر پر تقاریب میں نہیں بلانا چاہتے تو پرواہ نہیں، حالانکہ وہاں کئی دوسری خواتین بڑی بے تکلفی سے گھوم رہی تھیں۔ آپ کا گھر ہے اور آپ کا فیصلہ، لیکن یہ اچھی روایت نہیں ہے۔ آپ سے یہی رویہ اختیار کیا جائے تو آپ کو پسند نہیں آئے گا۔
فوزیہ قصوری نے لکھا کہ انہیں پرواہ نہیں لیکن زہرا آپا یا کسی بھی دوسری خاتون رکن کی بے عزتی قابل برداشت نہیں۔ نعیم الحق کا ان کے ساتھ رویہ حد سے زیادہ غلط تھا۔ امید ہے آپ یہ ای میل انہیں بھیجیں گے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے ای میل کے جواب میں لکھا کہ ان کے گھر پر کوئی فنڈ ریزنگ تقریب یا میٹنگ نہیں تھی۔ طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے کسی چیز کا علم نہیں تو وہ بھی میری غلطی ہے اور اگر مجھے کسی جگہ فنڈ دینا ہے تو وہ بھی میری غلطی ہے، اگر آپ کسی چیز کا علم نہیں تو وہ بھی میری غلطی ہے۔
اس کے ساتھ ہی عارف علوی نے ای میل نعیم الحق کو فارورڈ کرتے ہوئے کہا کہ وہ معاملے کو دیکھیں۔
فوزیہ قصوری بھی چپ نہیں بیٹھیں اور فوراً جواب لکھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے گھر میں جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت پر بڑی پریس کانفرنس ہوئی۔ ہمیں بن بلائے آنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ میں باربی کیو پارٹی میں آنا نہیں چاہتی تھیں لیکن عمران اسماعیل نے دعوت دی تو آنا پڑا۔ بہت اچھی پارٹی تھی اور سوائے ویمن ونگ کی سینئر ارکان کے سب ہی موجود تھے۔
ساتھ ہی لکھا کہ وہ اس بحث کو بڑھانا نہیں چاہتیں، وہ کراچی میں مہمان اور عارف علوی میزبان تھے، اس میزبانی کے لیے آپ کا شکریہ۔
صدر عارف علوی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ پریس کانفرنس ایئرپورٹ پر ہونا تھی اور اس کے بعد طارق شفیع کے گھر پر۔ لیکن جگہ کم ہونے کی وجہ سے نعیم صاحب نے میرے گھر پر پریس کانفرنس کی انتظامات کا کہا۔ ایئرپورٹ سے واپسی پر تمام میڈیا کو میرے گھر آنے کا کہا گیا، خان صاحب کو بھی آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تاکہ میڈیا والے پہنچ جائیں۔ اگرچہ میرا گھر استعمال ہو رہا تھا لیکن میزبان میں نہیں تھا۔
اس کے بعد ای میل ہنگامے میں نعیم الحق کی انٹری ہوئی انہوں نے فوزیہ قصوری کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وہ کسی پر غلط الزامات نہیں لگاتے۔ وہ تحریک انصاف سندھ کے صدر کے طور پر فل ٹائم کام کرتے ہیں۔ وہ روزانہ جتنے لوگوں سے ملتے ہیں دوسرے شائد مہینے بھر میں نہ ملتے ہوں۔ میں اپنے اس نتیجے پر قائم ہوں کہ زہرہ آپا سندھ کی خواتین کی اکثریت کا اعتماد کھوچکی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ کسی کو ہدف نہیں بنایا جا رہا، بلکہ یہ ایک حساس موضوع پر بات کرنے کی کوشش ہے۔ زہرہ آپا اچھی خاتون ہیں لیکن ان کی مہارت دوسرے شعبے میں ہے۔ آئندہ ہفتے حیدرآباد میں ویمن ونگ سندھ کا کنونشن ہو رہا ہے یہ باتیں وہاں کریں گے۔
فوزیہ قصوری نے ای میل زہرہ آپا کو بھیجتے ہوئے لکھا کہ اپنے پر لگائے گئے الزامات کا جواب وہ خود دیں گی۔ اس کے ساتھ ہی لکھا کہ خواتین میں اعتماد کھونے کے الزامات درست نہیں، جن چھ خواتین کے نام آپ (نعیم الحق) نے لکھے ہیں تحریک انصاف ویمن ونگ سندھ میں اس سے کہیں زیادہ خواتین ہیں۔
فوزیہ قصوری نے اپیل کی کہ کسی کو بھی کرپٹ اور ایماندار قرار دینے میں احتیاط کی جائے کیونکہ اس طرح پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ صوبوں میں خواتین ونگ کی عہدیداروں کو صرف مرکزی خواتین ونگ کی صدر ہی ہٹا یا تعینات کر سکتی ہیں۔ مردوں کو اس معاملے میں کودنے کی ضرورت نہیں۔
اس پر نعیم الحق نے جوابی ای میل کی جس میں الزامات کی پوری فہرست دی گئی۔ نعیم الحق نے لکھا کہ پہلی بات یہ کہ تحریک انصاف سندھ نے عمران خان کے دورہ کراچی کے دوران کوئی فنکشن نہیں رکھا ار اس لیے کسی کو مدعو نہیں کیا۔
دوسرا یہ کہ ویمن ونگ سندھ نے خود کو بالکل الگ تھلگ کر رکھا ہے اور یہ صرف چند انگلش اسپیکنگ خواتین (تمام نئی انٹریوں) تک محدود کیا ہے اور انہوں نے ڈیفنس فیز فائیو سے باہر کبھی کچھ نہیں کیا۔ زہرہ آپا ویمن ونگ کی تمام سینئر خواتین نازیہ ربانی، ارم بٹ، سعدیہ آغا، مسز فاروق، ڈاکٹر شہناز، ادیبہ وغیرہ سے الجھ چکی ہیں اور ان کی حمایت مکمل طور پر کھوچکی ہیں۔
اس لیے زہرا آپا کو تبدیل کرنا ضروری ہے اور اگر آپ چاہیں تو انہیں مرکز میں عہدہ دے دیں۔
نعیم الحق نے لکھا کہ فیصل واوڈا کی جانب سے تحریک انصاف میں شمولیت پر عمران خان کو ان کے گھر جانے سے میں نے روکا تھا کیوں کہ فیصل واوڈا بہت بدنام ہیں۔ اور مجھے اس ڈیزاسٹر کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔
چوتھے پوائنٹ میں نعیم الحق نے لکھا کہ زہرہ آپا ننے جلسے کے لیے اکٹھی ہونے والے دس لاکھ روپے بھی دینے سے انکار کر دیا ہے، یہ رقم جلسہ کے قابل ادا تیس لاکھ روپے کی ادائیگی کے لیے بہت ضروری تھی۔ یہ رویہ ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے میں نے بینک کو اکاؤنٹ منجمد کرنے کے لیے لکھ دیا۔
پانچواں یہ کہ تحریک انصاف کے آئین کے تحت ویمن ونگ صوبوں کے تحت آتا ہے۔ اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ ویمن ونگ بہتر طریقے سے چلے اور علیحدگی میں نہ رہے۔ برائے مہربانی زہرہ آپا کو مرکز میں ذمہ داری دیں تاکہ انہیں غیرقانونی پوسٹ سے ہٹایا جاسکے۔
الزامات کے جواب میں زہرہ آپا نے طویل ای میل لکھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ارم بٹ کو ہدف بنایا اور لکھا کہ خاتون کو ان سے نہیں بلکہ نازیہ ربانی سے مسائل ہیں جو اونچا بولنے اور خود ستائش کی شوقین ہیں۔ ارم نے مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور تحریری شکایت کی ہے۔ نعیم الحق کو ان معاملات سے آگاہ کرنے کے بعد ایکشن لینا چاہتی تھی لیکن نعیم الحق نے ٹیلی فون پر ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا اور ویمن ونگ کے اکاؤنٹ منجمد کرانے کی دھمکیاں دیں۔ نعیم الحق نے مجھے ویمن ونگ کی صدارت سے نکال باہر کرنے کا کہا اور فون پٹخ دیا۔
میں اس پر ششدر رہ گئی حالانکہ مجھے اس کی توقع کرنی چاہیے تھی کیونکہ نعیم (نعیم الحق) ٹیلی ویژن پر بھی کئی مرتبہ آپے سے باہر ہوچکے ہیں۔
جلسے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ جلسہ شروع ہوتے ہیں نعیم الحق نے مجھے دور رکھنا شروع کر دیا۔ بوٹ کلب پر لنچ کے دورانہ فردوس شمیم نقوی نے مجھے خفیہ طور پر بتایا کہ نعیم الحق نے میری کسی بھی کمیٹی میں شمولیت کو ویٹو کردیا ہے۔ ویمن ونگ کی جانب سے جلسہ کے لیے پوسٹرز اور پمفلٹس چھپوانے کے لیے انفارمیشن سیکریٹری نے رابطہ کیا تو نعیم الحق نے ٹیلی فون کا جواب ہی نہیں دیا۔ پھر بتایا گیا کہ پیشگی ادائیگی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ اپنی جیب سے سوا دو لاکھ روپے ادا کرکے بینر، سٹیمر اور جھنڈے تیار کرائے۔ لیکن ویمن ونگ کے عہدیداروں اور ان کے ساتھ آنے والوں کو جھنڈے اور بینر نہیں ملے۔
بتایا گیا کہ ڈیفنس فیز فائیو میں ٹرانسپورٹ کا انتظام ہے۔ جلسہ میں شرکت کے لیے مہنگی گاڑیوں پر آنے والوں کو کھٹارا بسیں دی گئیں۔ جلسہ گاہ پہنچنے پر بھی دو گھنٹے تک دھوپ میں کھڑا رکھا گیا پھر سیٹوں پر بیٹھنے کی اجازت ملی۔
فنڈ ریزنگ ایونٹ کی بات کی جائے تو پہلے نعیم الحق اور عارف علوی نے ایونٹ ثبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کی۔ لوگوں کو کہا گیا کہ ایونٹ منسوخ ہوگیا ہے، ہارون رشید کی رہائش گاہ پر عمران خان کو نہ بتاتی تو انہیں علم ہی نہ ہوتا۔ (یہ بھی اتفاق ہے کہ مجھے نعیم الحق نے بتایا تھا کہ ڈونر خفیہ رہنا چاہتے ہیں لیکن ہارون رشید کی رہائش گاہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی)۔ عمران اسماعیل نے مجھ سے ڈیڑھ گھنٹے کی سلاٹ کا وعدہ کیا لیکن میں نے دو گھنٹے کا مطالبہ کیا۔ نعیم الحق چالیس منٹ بعد ہی اس کو پرے لے گیا۔ چیمبر آف کامرس کا سربراہ لیاقت مرچنٹ، انڈسٹریز، بینک اور تعلیمی اداروں کے عہدیدار عمران خان سے ملاقات کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ لیاقت مرچنٹ اور دیگر افراد بہت مایوس نظر آئے۔ جہاں تک فیصل واوڈا کی بات ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی مسئلہ کیاہے؟۔ اس کو اچھے لوگوں نے مجھ سے متعارف کرایا اور اس کا رویہ ان سے بہت اچھا ہے۔ فیصل واوڈا پارٹی کے لیے ڈیفنس فیز فائیو میں نیا آفس اور شوکت خانم اسپتال کے لیے چار وارڈز بنا کر دینے کو تیار تھا لیکن اس کو عمران خان سے ملنے ہی نہیں دیا گیا۔ عمران خان کو ڈونر سے الوداعی مصافحہ کرنے یا کلمات تک کہنے نہیں دیئے گئے۔
فنڈ ریزنگ ایونٹ میں شرکت کی کم از کم فیس پانچ ہزار روپے تھی، میں نے ایسے پارٹی ارکان جو یہ فیس ادا نہیں کرسکتے تھے، سے کہا تھا کہ وہ آ جائیں اوران کے حصے کا فنڈ میں ادا کر دوں گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے دوستوں اوررشتے داروں کو بھی لے کر پہنچ جائیں، جیسا کہ نازیہ ربانی نے کیا۔
ہم اس جگہ نہیں جاتیں جس جگہ ہمیں بلایا نہ گیا ہو تو پارٹی کے مرد عہدیداروں ںے ایونٹ پر کیوں دھاوا بول دیا۔ چیئرمین کے ساتھ سیکریٹری جنرل اور سندھ کے صدر کا آنا بنتا ہے، اس کے ساتھ سیف اللہ نیازی اور عمران اسماعیل کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن ان سب نے چندہ دیا۔ اگر پارٹی کے سینئر ارکان ہی تہذیب کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو وہ چھوٹے ارکان اور کارکنوں سے کیسے اس کی توقع کرسکتے ہیں؟۔
زہرہ آپا نے لکھا کہ یہ نعیم الحق کی کوتاہ نظری ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ویمن ونگ میں صرف چھ خواتین ہیں۔ مسز غزالہ منگریو، حجاب کھوسو، حنا مغل، نسرین سومرو، زنیرا ملک کے بارے میں کیا خیال ہے، جو سندھ میں مہارت کے ساتھ آفس اور مالیاتی امور چلا سکتی ہیں نہ کہ وہ خواتین جو ٹیلی فون کال کے لیے بھی کہیں سے پیسے آنے کا انتظار کر رہی ہوں۔ بلاشبہ پارٹی میں غریب ارکان بھی ہوں گی لیکن تب جب ایسی عہدیدار ہوں جو دفاتر، ایونٹ اور گاؤں گاؤں جانے اور بنیادی کمیونیکیشن کا بندوبست کر سکیں۔
یہ بھی دھیان رکھا جائے کہ دیہات میں خواتین کو ان کے مرد کنٹرول کرتے ہیں اور اس لیے انہیں اکٹھے کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسی کئی خواتین کو میں پارٹی میں لائی ہوں جن میں ایک مہتاب اکبر راشدی ہیں جو اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ تحریک انصاف کا حصہ بنیں۔ امینہ سیدی، حسینہ معین، ڈاکٹر طلعت وزارت، ڈاکٹر شفا صادق، لطف اللہ خان اور ان کی اہلیہ بھی ایسی مثالیں ہیں۔ صرف چھ خواتین یہ سب نہیں کرسکتیں جو ویمن ونگ سندھ نے کیا ہے۔
زہرہ آپا نے لکھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ نعیم الحق نے یہ تباہی کا راستہ کس لیے چنا۔ عارف علوی اور فوزیہ قصوری خود اندازہ لگا سکتی ہیں کہ سب یہ کیوں کہتے ہیں کہ سندھ میں ویمن ونگ مردوں سے زیادہ متحرک ہے۔
اس پر نعیم الحق نے ای میل کرتے ہوئے لکھا کہ بے بنیاد الزامات لگانے پر انہوں نے زہرہ آپا کو تحریک انصاف ویمن ونگ سندھ کی صدارت سے فوری برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حقیقت میں غلط الزامات لگانے پر آپ تحریک انصاف سے نکال باہر کرنے کے ہی قابل ہیں۔ زہرہ کی برطرفی کا نوٹیفکیشن تمام عہدیداروں کو بھیجا جا رہا ہے۔
برطرفی کی ای میل کے جواب میں زہرہ آپا نے طنزاً لکھا کہ تحریر اور ٹیلی فونک گفتگو میں آپ کی ٹون اور بدترین الفاظ سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ آپ کو مجھے برطرف کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور اگر یہ اختیار ہو بھی تو ایسے احمقانہ انداز میں برطرفی نہیں کی جاسکتی۔ ایک صوبائی صدر تو دور آپ پارٹی کے کسی جونیئر عہدیدار کو بھی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر نہیں نکال سکتے۔
آپ کے الفاظ میں میرے ’’الزامات‘‘۔ قابل تصدیق ہیں اور میں انہیں آسانی کے ساتھ ثابت کرسکتی ہوں لیکن کیا آپ ایسے انکشافات چاہتے ہیں؟۔ سندھ کا پورا ویمن ونگ صرف ایک یا دو ارکان کے میرے ساتھ ہے۔ اگر اپ نے یہ بے وقوفانہ حرکتیں جاری رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ تحریک انصاف سندھ کا ویمن ونگ حقیقت میں کیا ہے؟۔
میں دن بھر میڈیا کو اس خبر کو جھوٹا کہہ کر ٹالتی رہی لیکن اب آپ کے ایک ’’ماتحت‘‘ نے ٹی وی پر شور مچا دیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو احساس بھی ہے کہ یہ پارٹی کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ جو بھی اعتماد ہم نے قائم کیا ہے وہ اچانک ہی ختم ہو جائے گا۔
میں صرف امید کرسکتی ہوں کہ آپ کا فیصلہ جلسے کے انتظامات کے دباؤ میں ہوا ہو گا اور اس میں پراگندہ ذہن کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ ہم اپنے اختلافات آپس میں حل کرسکتے ہیں، آپ کو یہ میڈیا کمپیئن فوری بند کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر صرف عارف حمید بھٹی کی جاری کردہ معلومات پر تیار کی گئی ہے۔ دنیا ٹوڈے ان مندرجات کے صحیح یا غلط ہونے کا ذمہ دار نہیں۔