کوہستان ویڈیو کیس: پانچ لڑکیوں کے قتل پر تین ملزمان کو عمرقید کی سزا

کوہستان ویڈیو اسکینڈل: پانچ لڑکیوں کے قتل پر تین ملزمان کو عمرقید

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بشام میں عدالت نے ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ پانچ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے۔

سنہ 2012 میں ضلع کوہستان کے گاؤں غدر پلاس میں ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں لڑکوں کا رقص دیکھتے ہوئے پانچ لڑکیوں کو تالیاں بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جن کے مبینہ طور پر مقامی جرگے کے فیصلے کی روشنی میں قتل کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

خیبر پختونخوا کی پولیس کے حکام یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ شادی پر ڈانس کرنے والی لڑکیوں کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ وہ زندہ ہیں تاہم اس واقعے کے تین سال کے بعد صوبائی پولیس نے تسلیم کر لیا تھا کہ ان لڑکیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس اس معاملے کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد اگست 2018 میں یہ مقدمہ درج ہوا تھا اور آٹھ ملزمان کو حراست میں لیا گیا تھا۔

صحافی محمد زبیر خان کے مطابق مقدمے کی کارروائی سات ماہ تک جاری رہی جس کے بعد جمعرات کو ضلع شانگلہ کے شہر بشام کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فیصلہ سناتے ہوئے محمد عمر، صبیر اور طاہر نامی ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ پانچ ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔

سزا پانے والے تمام ملزمان آپس میں رشتہ دار ہیں۔

خیال رہے کہ یہ مقدمہ دائر کرنے والے افضل کوہستانی کو بھی رواں برس مارچ میں ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔ افضل کوہستانی نے خیبرپختونخوا کی پولیس کو اپنی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے باقاعدہ درخواستیں دے رکھی تھیں۔

اس کیس کے بارے میں رواں برس مارچ میں قتل کر دیے جانے والے مدعی افضل کوہستانی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انصاف کے تقاضے اس وقت پورے ہوں گے جب قاتلوں کو سزا ملے گی اور اس کے بعد آئندہ کوئی بھی کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل نہیں کرے گا۔

یاد رہے کہ کوہستان ویڈیو سکینڈل منظر عام پر لانے کے بعد افضل کے دو بھائیوں کو بھی ان کے آبائی علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ دونوں وہی لڑکے تھے جنھیں مذکورہ ویڈیو میں رقص کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔

کوہستان ویڈیو سکینڈل کیا تھا؟

خیال رہے کہ سنہ 2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس اس معاملے کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد اگست 2018 میں یہ مقدمہ درج ہوا تھا اور آٹھ ملزمان کو حراست میں لیا گیا تھا۔  صحافی محمد زبیر خان کے مطابق مقدمے کی کارروائی سات ماہ تک جاری رہی جس کے بعد جمعرات کو ضلع شانگلہ کے شہر بشام کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فیصلہ سناتے ہوئے محمد عمر، صبیر اور طاہر نامی ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ پانچ ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔  سزا پانے والے تمام ملزمان آپس میں رشتہ دار ہیں۔  خیال رہے کہ یہ مقدمہ دائر کرنے والے افضل کوہستانی کو بھی رواں برس مارچ میں ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔ افضل کوہستانی نے خیبرپختونخوا کی پولیس کو اپنی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے باقاعدہ درخواستیں دے رکھی تھیں۔  اس کیس کے بارے میں رواں برس مارچ میں قتل کر دیے جانے والے مدعی افضل کوہستانی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انصاف کے تقاضے اس وقت پورے ہوں گے جب قاتلوں کو سزا ملے گی اور اس کے بعد آئندہ کوئی بھی کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل نہیں کرے گا۔  یاد رہے کہ کوہستان ویڈیو سکینڈل منظر عام پر لانے کے بعد افضل کے دو بھائیوں کو بھی ان کے آبائی علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ دونوں وہی لڑکے تھے جنھیں مذکورہ ویڈیو میں رقص کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔  کوہستان ویڈیو سکینڈل کیا تھا؟  خیال رہے کہ سنہ 2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔

ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔

افضل کوہستانی کے اس دعوے کے بعد انسانی حقوق کارکنوں نے احتجاج کیا تھا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار چوہدری نے از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔

اس کمیشن کی رپورٹ میں لڑکیوں کو زندہ قرار دیا گیا تھا مگر انسانی حقوق کی کارکن اور کمیشن کی ممبر فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست عدالت میں دائر کی تھی۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے پہلے خاتون جوڈیشل افسر منیرہ عباسی کی سربراہی اور بعد ازاں سنہ 2016 میں اس وقت کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج داسو، کوہستان محمد شعیب کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔

محمد شعیب کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے فارنزک تحقیقات کی تجویز دی تھی جس پر سرپم کورٹ آف پاکستان کے دو رکنی بینچ جس کی سربراہی ریٹائر ہو جانے والے جج جسٹس اعجاز افضل کر رہے تھے نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ جوڈیشل آفیسر محمد شعیب کی پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔

جسٹس اعجاز افضل کے ریٹائر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس سال کے ابتدائی دنوں مقدمے کی سماعت کی تھی جس میں خیبر پختونخوا پولیس نے تسلیم کیا کہ تین لڑکیاں قتل ہو چکی ہیں اور رپورٹ پیش کی تھی کہ لواحقین نے بیان حلفی دیا ہے کہ دو لڑکیاں زندہ ہیں اور ان کو جلد پیش کر دیا جائے گا۔

x

Check Also

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

سلام آباد:مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور ...

%d bloggers like this: