پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا پانے اور پھر اپیل کے بعد بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی نے کہا ہے کہ دنیا کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کی وجہ سے کئی لوگ اب بھی جیل میں ہیں۔
توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر 2018 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔
آسیہ بی بی کو رہائی کے بعد پاکستان میں ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی رہائی کے فیصلے پر ملک میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور سپریم کورٹ سے باعزت بری ہونے کے بعد آسیہ تقریباً تین ماہ قبل پاکستان سے کینیڈا چلی گئی تھیں۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا پانے اور پھر اپیل کے بعد بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی نے کہا ہے کہ دنیا کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کی وجہ سے کئی لوگ اب بھی جیل میں ہیں۔
توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کو آٹھ سال قید میں رکھا گیا تھا لیکن اکتوبر 2018 میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انھیں بری کر دیا تھا۔
آسیہ بی بی کو رہائی کے بعد پاکستان میں ایک نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کی رہائی کے فیصلے پر ملک میں مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور سپریم کورٹ سے باعزت بری ہونے کے بعد آسیہ تقریباً تین ماہ قبل پاکستان سے کینیڈا چلی گئی تھیں۔
برطانوی اخبار کے مطابق آسیہ بی بی نے یہ بھی کہنا تھا کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین کے غلط الزام میں سزا پانے کی وجہ سے اُن کی زندگی برباد ہو گئی۔
توہینِ مذہب کے قانون کے استعمال کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘میں پوری دنیا سے گزارش کرتی ہوں کہ وہ اس مسئلے پر غور کریں۔ جس طرح کسی شخص پر بھی بغیر باقاعدہ تحقیقات اور شواہد کے توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بلاسفیمی کے قانون کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس قانون کے لاگو کیے جانے کے لیے تحقیقات کا باقاعدہ نظام ہونا چاہیے۔‘
اپنی اسیری کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے آسیہ کا کہنا تھا کہ ‘کبھی کبھی میں اتنی دلبرداشتہ ہو جاتی تھی کہ ہمت ہار دیتی تھی اور سوچتی تھی کہ کبھی جیل سے نکلوں گی بھی کہ نہیں۔ آگے کیا ہو گا، کیا میں ساری زندگی یہیں گزاروں گی؟’
جیل میں اپنی بچیوں سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘جب میری بیٹیاں مجھ سے جیل میں ملنے آتی تھیں تو میں کبھی اُن کے سامنے نہیں روتی تھی، مگر جب وہ چلی جاتی تھیں تو تنہائی میں غم اور تکلیف میں رویا کرتی تھی۔ مجھے ہر وقت ان کا خیال آتا تھا کہ وہ کیسے جی رہی ہوں گی۔’
آسیہ بی بی نے بتایا کہ ایک طویل عرصہ جیل میں گزارنے اور پھر سپریم کورٹ سے بری کیے جانے کے بعد جب وہ وقت آیا کہ انھیں اپنی آزادی کے لیے بغیر اپنے عزیر و اقارب سے ملے اور اپنا آبائی علاقہ دیکھے بغیر ملک چھوڑنا پڑا تو ان کا دل ٹوٹ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اپنے خاندان والوں سے ملے بغیر ملک چھوڑنے پر میرا دل ٹوٹ گیا۔ پاکستان میرا وطن ہے۔ مجھے اپنے ملک سے محبت ہے۔ مجھے اپنی مٹی سے محبت ہے۔’
آسیہ بی بی کیس کیا تھا؟
آسیہ نورین بی بی پنجاب کے ضلع ننکانہ کے ایک گاؤں اِٹاں والی کی رہائشی تھیں جو لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔
2009 میں اسی گاؤں میں فالسے کے ایک باغ میں آسیہ بی بی کا گاؤں کی چند عورتوں کے ساتھ جھگڑا ہوا جس کے دوران مبینہ طور پر انھوں نے پیغمبرِ اسلام کے خلاف ‘تین توہین آمیز’ کلمات کہے تھے۔
استغاثہ کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد آسیہ بی بی نے عوامی طور پنچایت میں خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے معافی طلب کی۔
الزام لگنے کے چند روز بعد آسیہ کو اِٹاں والی میں ان کے گھر سے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
جون 2009 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس میں توہینِ رسالت کے قانون 295 سی کے تحت الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف ‘تین توہین آمیز’ کلمات کہے تھے۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام قاری محمد سالم تھے تاہم آسیہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔
2010 میں ضلع ننکانہ صاحب کی سیشن عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنا دی اور وہ پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
آسیہ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔ چار سال بعد اکتوبر 2014 میں عدالت نے سزا کی توثیق کر دی۔
آسیہ بی بی نے جنوری 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس نے اکتوبر 2018 میں انھیں بری کر دیا۔