احتساب عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو 9 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔
نیب کی ٹیم فریال تالپور کو اسلام آباد میں سب جیل قرار دی گئی ان کی رہائش گاہ سے جیل کے لیے لے کر روانہ ہوئی تو پیپلزپارٹی کے کارکنان نے فریال تالپور کی گاڑی کو گھیر لیا اور نیب کے خلاف نعرے بازی کی۔
اس موقع پر پولیس کی بھی نفری موجود تھی جس نے کارکنان کو پیچھے دھکیل کر گاڑی روانہ کی۔
نیب نے احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک کی عدالت میں فریال تالپور کو پیش کیا جہاں نیب نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ہے۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فریال تالپور نے کہا کہ سب جانتے ہیں یہ سیاسی گرفتاریاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہاپنے آپ کواللہ کے حوالے کیا ہے،اللہ خیر کرے گا۔
نیب نے گزشتہ روز رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور کو اسلام آباد میں زرداری ہاؤس کے قریب ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے دو روز قبل جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریال تالپور کی گرفتاری کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے جس کے بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔
نیب نے فریال تالپور کو اپنے دفتر منتقل نہیں کیا اور انہیں اسلام آباد میں ہی واقع ان کی رہائش گاہ میں رکھا گیا ہے جسے نیب کی جانب سے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ فریال تالپور تاحکم ثانی اپنے گھر میں قید رہیں گی، ان کی عزت نفس کا پہلے بھی احترام رکھا گیا اور آئندہ بھی مکمل خیال رکھا جائے گا۔
نیب نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو خط کے ذریعے فریال تالپور کی گرفتاری کے بارے میں آگاہ کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ رکن سندھ اسمبلی کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر
منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔
جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔
اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔
اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔
نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔
نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔
فریال تالپور نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں عبوری ضمانت میں 5 مرتبہ توسیع حاصل کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریال تالپور اور آصف زرداری کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری کو 10 جون کو زرداری ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا۔