شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی گاڑی پر حملے کی مذمت کے معاملے پر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور حکومتی ارکان کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوگئی۔
بلاول بھٹوزرداری نے شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی گاڑی پرحملے کی مذمت کی اور کہا کہ ‘آج پھر ایک جوان وطن پر قربان ہو گیا۔ دھرتی پر جان قربان کرنے والے جوان ہمارے ہیرو ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔
بلاول کی مذمت پر وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ‘بلاول کی جانب سے نامعلوم حملہ آور کی مذمت دوغلی سیاست ہے۔ بلاول بھٹو نے چیک پوسٹ پر حملے پرمحسن داوڑ کی حمایت کی تھی وہ آج شہدا کے خون پر سیاست نہ کریں’۔
Supporting Mohsin Dawar on attack on Kharkamar Check Post by,while condemning today unidentifiable attacker shows Dual Politics of BBZ,, …… playing Politics with blood of shaheeds.?
Say no to Politics on martyrs blood— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) June 1, 2019
بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘جب تمہارا لیڈر جب دہشت گردوں کو بھائی کہتا تھا تو میں اپنے فوج پرحملے کی مذمت کررہا ہوتا تھا’۔
While your current leader called terrorists his brothers I was condemning terrorist attacks on our soldiers & still do today. Thats called consistency, something understandably alien to you. Dawar & Wazir are MNAs not terrorists. Asking speaker to follow rules… https://t.co/qKGIrAUA7F
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) June 1, 2019
بلاول نے کہا کہ ‘میں آج بھی اپنے فوجیوں پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہوں، اسی کو تسلسل کہتے ہیں جس کی آپ کو سمجھ نہیں آتی، محسن داوڑ اور علی وزیر ایم این ایز ہیں دہشت گرد نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی کو قواعد پر عمل درآمد کرنے کا کہہ رہا ہوں’۔
… and calling for a commission is supporting facts, truth & democracy not any individual. Surely as a lawyer you believe everyone is entitled to a fair trial under Article 10A of the constitution? Professional turncoats should really not talk about ‘dual politics’.
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) June 1, 2019
بلاول اور فواد چوہدری کے درمیان ہونے والی اس لفظی جنگ میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی کود پڑیں۔
اپنے بیان میں فردوس عاشق نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا دوہرا معیار ہے، بلاول بھٹو زرداری کی شہیدوں کے خون پر سیاست ہے۔
پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری کا دوہرا معیار، بلاول بھٹو زرداری کی شہیدوں کے خون پر سیاست۔ خر کمڑ چیک پوسٹ پرمحسن داوڑ کےحملہ کو مستردکر دیا، بویا میں آج دہشت گرد حملہ کی مذمت کردی۔
— Firdous Ashiq Awan (@Dr_FirdousPTI) June 1, 2019
انہوں نے کہا کہ بلاول نے خر کمڑ چیک پوسٹ پر محسن داوڑ کے حملے کو مسترد کردیا اور بویا میں آج دہشت گرد حملے کی مذمت کردی، راؤ انوار کو بہادر بچہ اور محسن داوڑ کے پرو ڈکشن آرڈر پر اصرار ہے۔
راؤ انوار کو بہادر بچہ اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر پر اصرار، بویا میں سپاہی کو شہید کرنے والے نامعلوم افراد کی مذمت.
— Firdous Ashiq Awan (@Dr_FirdousPTI) June 1, 2019
بعد ازاں وزیراطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی بھی اس لفظی گولہ باری میں شامل ہوگئے اور کہا کہ بلاول بهٹو پہلے فیصلہ کریں کہ وہ کہاں کهڑے ہیں، محسن داوڑ اور علی وزیر کی آرمی چیک پوسٹ پر حملے کی بلاول بهٹو مذمت کریں۔
شوکت یوسفزئی نے کہا کہ شہیدوں کے خون پر سیاست قابل مذمت ہے، بلاول آگے بڑهیں اور محسن داوڑ اور علی وزیر کو سزا دلانے کا مطالبہ کریں، فوج کے جوانوں اور بے گناہ لوگوں کے خون کا حساب محسن داوڑ اورعلی وزیر سے لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ آج شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ بویہ کے علاقے میں پاک فوج کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور دیسی ساختہ بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سپاہی عامل شاہ شہید ہو گیا۔
سا سے قبل 25 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے بویہ میں ہی مسلح افراد نے خار کمر چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 5 اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
پاک فوج نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 8 ساتھیوں سمیت گرفتار کیا تھا جب کہ محسن داوڑ موقع سے فرار ہو گئے تھے۔
بعد ازاں پاک فوج نے چیک پوسٹ پر حملے کے الزام میں محسن داوڑ کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے فوری پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں تاکہ وہ اجلاس میں آ کر اپنا مؤقف دے سکیں اور قوم کو پتہ چل سکے کہ شمالی وزیرستان میں کیا ہو رہا ہے۔