شوگر ملوں کو واپس سنٹرل پنجاب لائیں

اکستان میں زرعی ماہرین نے سپریم کورٹ کی جانب سے تین شوگر ملوں کی اپیل کو مسترد کرنے کے فیصلے کو صحیح فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس ملک میں پانی کی قلت اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ ڈیم کے لیے چندہ دیں وہاں کیسے آپ شوگر ملز کو کپاس کے علاقے میں منتقل کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے تین شوگر ملز کو حکم دیا ہے کہ کپاس کے علاقوں سے شوگر ملز کو دو ماہ کے اندر اپنی اصل جگہ منتقل کیا جائے تاہم عمارت کو منہدم نہ کیا جائے اور اس عمارت کو کسی اور کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ حسیب وقاص شوگر ملز لمیٹڈ، چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ اور اتفاق شوگر ملز لمیٹڈ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر دیا۔

ان تینوں شوگر ملز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خاندان کے ارکان اور قریبی رشتہ داروں کی ملکیت ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جس ملک میں چینی کی طلب ساڑھے پانچ ملین ٹن ہے وہاں پر کرشنگ کی صلاحیت 10 ملین ٹن ہے۔

شوگر ملز نے اپنی ملیں اس وقت کپاس کے علاقوں میں منتقل کیں جب کپاس کے مقابلے میں گنے کی کاشت پر اچھی ریکوری ہوتی ہے۔

’پاکستان میں زر مبادلہ کپاس سے آتا ہے نہ کہ چینی سے۔ اگر عالمی منڈی میں چینی کی 35 روپے ہے تو حکومت چینی کی قیمت 47 روپے طے کرتی ہے اس سے آپ چینی برآمد نہیں کر سکتے۔ یہ لاہور ہائی کورٹ اور اب سپریم کورٹ کا بالکل صحیح فیصلہ ہے۔‘

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ’جو بھی شوگر مل کپاس کی کاشت کے علاقے میں منتقل ہوئی ہے وہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے۔ جس ملک میں چینی کی طلب ہی ساڑھے پانچ ملین ٹن ہے تو یہاں آٹھ ملین ٹن چینی کیوں بنائی جاتی ہے جبکہ اس کو برآمد بھی نہیں کیا جاتا۔‘

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین سکندر خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت 90 شوگر ملز ہیں اور نئی شوگر ملز بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

’ملک میں پانی کی قلت پہلے ہی ہے اور اسی لیے ملک بھر میں کسی علاقے میں بھی نئی شوگر مل بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘

اپنے مختصر فیصلے میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے کہا کہ تینوں شوگر ملز کی مشینری جنوبی پنجاب کے علاقے سے منتقل کی جائیں تاہم عمارت کو قانونی طور پر کسی اور کاروبار کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کپاس کے علاقے میں گنا

اتفاق شوگر ملز پاکپتن ڈسٹرکٹ سے بہاولپور منتقل کی گئی جبکہ چوہدری شوگر ملز کو رحیم حار خان منتقل کیا گیا۔

منتقلی کے وقت ان شوگر ملز مالکان کی توجیہہ یہ تھی کہ جب پاکپتن ڈسٹرکٹ میں یہ ملز لگائی گئی تھیں اس وقت علاقے میں گنے کی کاشت 50 ہزار ایکڑ پر تھی اور فی ایکڑ گنے کی پیداوار 550 من تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ یہ کاشت کم ہوتی گئی اور 2014 میں یہ کاشت صرف آٹھ ہزار ایکڑ تک محدود ہو گئی۔

علاقے میں گنے کی پیداوار کم ہونے کے باعث ان شوگر ملز کو اپنی صلاحیت سے کم پر کام کرنا پڑا جس کے باعث کاروبار متاثر ہوا۔

شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ پاکپتن کے مقابلے میں بہاولپور میں گنے کی کاشت اور پیداوار میں بے حد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت چار لاکھ ایکڑ زمین پر گنے کی کاشت کی جا رہی ہے۔

پنجاب حکومت نے 2006 میں پالیسی جاری کی تھی جس کے تحت نہ تو کوئی نئی شوگر مل پنجاب میں لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی شوگر مل اپنی موجودہ صلاحیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔

اس پالیسی کا مقصد کپاس کی کاشت کے علاقوں میں گنے کی کاشت کی روک تھام تھا۔ گنے کی فصل دوسری فصلوں سے 18 فیصد زیادہ پانی استعمال کرتی ہے۔

تاہم اتفاق شوگر ملز لمییٹڈ پاکپتن سے بہاولپور اس وقت منتقل کی گئی جب نئی شوگر مل لگانے یا موجودہ شوگر مل کی صلاحیت کو بڑھانے کے حوالے سے حکومت پنجاب کی یہ پالیسی نافذ العمل تھی۔

دوسری جانب چوہدری شوگر ملز پاکپتن سے رحیم حار خان منتقل کی گئی۔ اس مل کے مالکان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا 2006 کی پالیسی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ نئی مل نہیں لگا رہے اور نہ ہی موجودہ مل کی صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ وہ صرف مل کو منتقل کر رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے سیکریٹری انڈسٹریز کے اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت شریف خاندان کے ارکان اور قریبی رشتہ داروں کی پانچ شوگر ملز کی دوسرے اضلاع میں منتقلی کی اجازت دی گئی۔

40 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک نے لکھا کہ درخواست گزار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے وہ اتفاق شوگر ملز نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز، کلثوم نواز، حمزہ شہباز اور دیگر خاندانی افراد کی ملکیت ہے۔

حسیب وقاص شوگر ملز حسیب الیاس، ذکیہ الیاس، شہزادی الیاس اور دیگر خاندانی افراد کی ملکیت ہے۔

جسٹس عائشہ اے ملک نے قرار دیا کہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ اچھی حکمرانی کے لیے حکومت قانون سازی کرتی ہے اور عدالتیں اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ تاہم غیر معمولی صورت میں عدالتیں پالیسی کا جائزہ لیتی ہیں کہ آیا پالیسی قانون کے دائرے میں بنائی گئی اور یہ بنیادی حقوق اور آئین کی نفی نہیں کرتی۔

لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے یہ بھی قرار دیا کہ منتخب حکومت کا مینڈیٹ لوگوں کے اعتماد اور بھروسہ پر قائم ہوتا ہے اس لیے مفادات کا تضاد عوامی بھروسہ اور پالیسی سازی کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خاندان کے ارکان اور قریبی رشتہ داروں کی ملکیت پانچ شوگر ملز کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع منتقلی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: