غلطیاں کرنا آپ کے لیے کیسے اچھا ثابت ہو سکتا ہے؟

امریکہ کی دریافت سے لے کر، زبان کا پھسلنا، شاندار بے تکا پن اور فاش غلطیاں کرنا ہمیشہ خراب نہیں ہوتا۔

بعض اوقات وہ سود مند اور فائدے کا سودا ثابت ہوتے ہیں۔

یا کم از کم ایسا سمجھا جات ہے۔ بی بی سی کے پروگرام سمتھنگ انڈرسٹوڈ میں غلطیوں کے نتائج پر نظر ڈالی گئی ہے۔

کہ ہم ان سے کس طرح فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

1۔ ہم اسی طرح سیکھتے ہیں

ہم تمام لوگوں نے یہ کہاوت سن رکھی ہے کہ ‘آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔’

اور یہ درست بھی ہے کہ کوشش کرنے اور غلطی کرنے سے ہمارا ذہن اور ہمارا ہنر بڑھتا ہے۔

ایسے کسی بچے کے بارے میں سوچیں جو چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے یا کسی جمناسٹ کے بارے میں جو کسی عمل پر مشق کر رہا ہویا پھر کسی مقابلے میں شامل بیکر کے بارے میں سوچیں جو جج کو متاثر کرنے سے قبل ایک ہی قسم کے کیک کو 20 بار بناتا ہے۔

مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے ہمیں اپنے ذہن کو کھولنے میں مدد ملتی ہے یا اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ذہن پر محنت کرنے سے اس میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔

123 بچوں کو ذہین بنانے کے مطالعے کے دوران انھوں نے یہ دیکھا کہ جو جنھوں نے اپنی غلطیوں پر زیادہ توجہ دی انھوں نے زیادہ سیکھا۔

2۔ اس کے غیرمتوقع مثبت اثرات ہو سکتے ہیں

تمام غلطیوں کا مثبت پہلو نہیں ہوتا لیکن بہت سی غلطیوں کا ہوتا ہے۔

موجدوں کی غلطیوں کی سبب مزید عظیم دریافت ہوئی ہیں، جن میں پیس میکر،پوسٹ اٹ نوٹ اورمائیکرو ویو شامل ہیں۔

اگر سکاٹ لینڈ کے سائنسدان الیگزینڈر فلیمنگ نے سنہ 1928 میں ایک چھوٹی سی غلطی نہ کی ہوتی تو ہمارا ماضی مختلف نظر آتا۔

فلیمنگ نے اینٹی بائیوٹک کی پنسلین کی دریافت نہیں کی ہوتی اگر انھوں نے پٹری ڈش یا سخری قاب چھٹیوں پر جانے سے قبل باہر نہ چھوڑ دیا ہوتا جو آلودہ ہو گیا تھا۔

اس کو صاف کرنے سے قبل انھوں نے ڈش میں دیکھا کہ پھپھوند میں اضافہ ہوا لیکن بیکٹریا نہیں بڑھا۔

یہ کوئی معمولی پھپھوند نہیں تھی یہ پنسیلیم نوٹیٹم تھا۔

اور یہی پنسلین کی دریافت کا موجب بنا جس سے بیکٹریا کے انفیکشن کا علاج کیا جانے لگا۔

خیال کریں کہ کس طرح ایک چھوٹی سے بھول لاکھوں جانیں بچانے کا موجب ہوئی۔

3۔ یہ ہمیں ہمارے بارے میں بتاتا ہے

معروف انگریزی مصنف آسکر وائلڈ نے لکھا: ’ہر آدمی اپنی غلطیوں کو تجربے کا نام دیتا ہے۔’

ان کے مزاح نے بہت ہی اہم نکتے کو اجاگر کیا ہے غلطی کرنا ہمیں اپنے بارے میں اور ہماری زندگی کے جاننے کے بارے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آپ کسی بڑے امتحان میں ناکام ہوں تو آپ یہ سیکھ جاتے ہیں کہ آپ کو حقیقی مایوسی سے کس طرح نمٹنا ہے۔

کسی مخصوص خاندان کے ترکے کے موضوع کو چھیڑیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ بے تکی باتوں کو ہینڈل کر سکتے ہیں یا نہیں۔

یا پھر اگر اپ 19 ویں صدی کے واعظ ولیم ملر ہیں جنھوں نے غلطی سے ہزاروں لوگوں کو یہ باور کرا دیا تھا کہ آرمیگڈن (خیر و شر کا آخری معرکہ) بس واقع ہونے والا ہے سے آپ یہ سیکھ سکتے ہیں کہ آپ اتنے بہادر ہیں کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکیں۔

22 اکتوبر 1844 کی صبح انھیں ان کے ہزاروں پریشان حال لیکن زندہ مریدوں کا سامنا تھا کہ انھوں نے حضرت عیسٰی کی آمد کا اعلان کیا تھا اور وہ نہیں ہوا۔

غصہ کرنے یا مذاق اڑانے کے بجائے ملر نے اپنی غلطی قبول کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے مجسم طور پر حضرت عیسٰی کے آنے کی امید کی تھی۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ہم سے غلطی نہیں ہوئی ہے تو یہ بے ایمانی ہو گی۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے میں کبھی بھی شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس طرح انھوں نے لوگوں کی تنی ہوئی بھنوں کو نیچا کر دیا!

4۔ یہ ہمیں ہمارے مقصد کے حصول کی آزادی دیتا ہے

امریکہ کے سابق صدر تھیوڈور روزو ولٹ نے کہا: ‘صرف وہی شخص کبھی غلطی نہیں کرتا جو کبھی کوئی کام نہیں کرتا۔’

غلطی کا ڈر ہمیں اکثر نئے کام کرنے سے روکتا ہے جبکہ غلطیوں کو قبول کرنا سے اس کا برعکس ہوتا ہے اور یہ ہمیں ہمارے مقصد کے حصول کے لیے لامحدود آزادی دیتا ہے۔

5۔ اس سے ہم اپنی ترجیحات واضح کر سکتے ہیں

معروف مصنفہ جے کے رولنگ کہتی ہیں کہ جہ وہ 20 اور 30 کے درمیان کی عمر میں تھیں تو وہ ‘بڑے پیمانے پر ناکام ہو چکی تھیں۔’

ان کی شادی ٹوٹ چکی تھی۔ وہ اور ان کی بیٹی غربت میں جی رہے تھے ایسے میں ایک مصنف کے طور پر ان کے کامیابی کے کیا امکانات تھے؟

سنہ 2008 میں ہارورڈ یونیورسٹی میں گریجویٹ کرنے والے طلبہ سے انھوں نے کہا: میں نے خود فریبی کو چھوڑ دیا کہ میں کیا تھی اور ایک ہی چیز پر توجہ مرکوز کی جو ہمارے لیے اہم تھی۔

انھوں نے کہا: ‘اس سے مجھے آزادی حاصل ہوئی کیونکہ میں نے اپنے سب بڑے ڈر کو جھیل لیا، میں پھر بھی زندہ تھی، میرے پاس ایک بیٹی ہے جسے میں پیار کرتی ہوں، میرے پاس ایک ٹائپ رائٹر ہے اور ذہن میں ایک بڑا خیال موجود ہے۔’

اسی بات نے ہیری پوٹر کی مصنفہ کو بدلہ دیا اور آج وہ دنیا کی معروف اور امیر ترین مصنفوں میں سے ہیں۔

6۔ بالآخر غلطیوں سے ہمیں ہنسنے کے لیے کچھ ملتا ہے

شیکسپیئر کی ‘کامیڈی آف ایررز’ سے جان کلیسے کی ‘فالٹی ٹاورز’ تک انگریزی کی معروف مزاحیہ تصانیف عظیم غلطیوں اور غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ایک عرصہ گزرنے کے بعد غلطیاں پر مزاح نظر آتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: