ہیلتھ اینڈ فٹنس،خواتین اور امراض گردہ

عالمی ادارہ صحت، انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فائونڈیشن کے باہمی اشتراک سے دنیا بَھر میں ہرسال مارچ کی دوسری جمعرات کو’’ گُردوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد گُردوں سے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر عام کرنا ہے، تاکہ بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔

امسال کا تھیم’’Kidneys And Women’s Health: Include, Value, Empower‘‘ ہے ۔ چوں کہ رواں برس یہ دِن خواتین کے عالمی یوم (8مارچ) ہی کو منایا جائے گا، تو تھیم کا انتخاب بھی اسی مناسب سے کیا گیا ہے۔

گُردوں کا بنیادی کام خون صاف کرنا یعنی خون میں غیرضروری اجزاء، زہریلے فاسد مادّوں کا بہ ذریعہ پیشاب اخراج ، جسم میں پانی، نمکیات کا توازن برقرار رکھنا اور خون کے دبائو پر قابو پانا ہے۔

نیز، یہ گُردے ہی خون کے سُرخ ذرّات کی افزایش کا عمل بھی انجام دیتے ہیں۔ اگر بند مُٹھی کے برابر حجم رکھنے والے گُردے فاضل مادّوں کے اخراج کا عمل انجام نہ دیں، تو یہ مادّے جسم میں جمع ہوکر مختلف خرابیوں کا باعث بن سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں گُردوں کے مختلف امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔

گُردے اگر وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ خراب ہوں، تو یہ گُردوں کے دائمی عوارض ’’Chronic kidney Diseases‘‘ کہلاتے ہیں، جب کہ اگر کسی بیماری کے باعث جیسے ملیریا یا پھر کسی قسم کے انفیکشن کے نتیجے میں گُردے اچانک کام کرنا چھوڑ دیں، تو انہیں حادثاتی یا جلد شدّت اختیار کرنے والی بیماریاں ’’Acute Diseases‘‘ کہا جاتا ہے۔

انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فائونڈیشن کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گُردوں کے مزمن امراض دنیا بَھر کی تقریباً19کروڑ 5لاکھ خواتین کو متاثر کرتے ہیں، جب کہ ہر سال چھے لاکھ کے قریب خواتین ان کے سبب لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔ یعنی خواتین میں موت کی آٹھویں بڑی وجہ گُردوں کے دائمی عوارض ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خواتین میں مرض کے پھیلائو کی شرح 14فی صد، جب کہ مَردوں میں 12فی صد ہے۔ تاہم، مَردوں کی نسبت خواتین میں ڈائی لیسسز کی شرح کم پائی جاتی ہے، جس کی تین بڑی وجوہ ہیں ۔

ایک تو یہ کہ سی کے ڈی (کرونک کڈنی ڈیزیز) مَردوں کے مقابلے میں خواتین میں بہت آہستہ آہستہ مہینوں اور برسوں کے حساب سے اثرانداز ہوتی ہے۔ دوم، نفسیاتی، سماجی و اقتصادی رکاوٹوں کے سبب خواتین کے ڈائی لیسسز کا عمل تاخیر سے شروع ہوتا ہے یا پھر سَرے سے ہوتا ہی نہیں۔ اور تیسری اہم وجہ زیادہ تر خواتین کی طبّی سہولتوں تک عدم رسائی ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں اس جانب بھی توجّہ مبذول کروائی گئی ہے کہ خواتین میں گُردے کی وصولی سے کہیں زیادہ عطیہ کرنے کا رجحان پایاجاتا ہے، اسی لیے صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی کے معاملات کو حل کرنے کے ساتھ خواتین میں شعور و آگاہی اُجاگر کرنا بھی ناگزیر ہے۔

عموماً حضرات کی نسبت، خواتین میں مخصوص جسمانی ساخت کے سبب گُردے اور پیشاب کی نالیوں کی سوزش کا امکان زیادہ پایا جاتا ہے، خاص طور پر دورانِ حمل کسی بھی صحت مند خاتون میں دیگر خواتین کی نسبت گُردے یا مثانے میں انفیکشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اس ضمن میں حاملہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دورانِ حمل باقاعدگی سے اپنا طبّی معائنہ کروائیں، تاکہ کسی بھی غیر متوقع تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگی پر قابو پایا جاسکے۔ عمومی طور پر دورانِ حمل ایک ماہر گائناکالوجسٹ ہی حاملہ کے وزن، خون کے دبائو، پیشاب اور گُردوں کی کارکردگی کی جانچ کے لیے ٹیسٹ تجویز کرتی ہے، تاکہ محفوظ زچگی عمل میں لائی جاسکے۔ نیز، دورانِ حمل وزن بڑھنے کا بھی ایک عالمی معیار مقرر ہے۔ اگر اس پیمانے سے وزن کم یا زیادہ ہو، تو دونوں صورتوں میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔

پھر دورانِ حمل اکثر خواتین کے خون کے دبائو (بلڈپریشر) میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جو کسی بھی وقت کسی بھی پیچیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ماں اور بچّے کی جان تک کے لالے پڑجاتے ہیں۔ حاملہ خاتون کے پیشاب کا ٹیسٹ کسی قسم کے انفیکشن اور پروٹین کے اخراج کی تشخیص کرتا ہے۔

اگر یہ ٹیسٹ مثبت ہو، تو اس صورت میں علاج ضرور ی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات دورانِ حمل تو کسی بھی قسم کی پیچیدگی لاحق نہیں ہوتی، لیکن زچگی کے وقت غیرمعمولی مقدار میں خون کا اخراج گُردوں کے اچانک خراب ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔

دنیا بَھر میں دورانِ حمل باقاعدہ معائنے اور زچگی کی بہت سہولتوں کے سب گُردوں کے اچانک خراب ہونے کی شرح بے حد کم یا نہ ہونے کے برابر ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شرح تشویش ناک حد تک زائد ہے، جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگائیے کہ گُردوں کے اچانک خراب ہونے والے مریضوں میں25سے35فی صد وہ خواتین شامل ہیں، جو دورانِ زچگی کسی پیچیدگی کے سبب خرابیٔ گُردہ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

یاد رکھیے، دورانِ حمل اگر پیشاب میں انفیکشن ہوجائے اور تشخیص میں تاخیر اور بروقت علاج نہ ہوسکے، تو شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کی نشوونما متاثر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح گُردوں کا ایک عارضہ لیوپس نیفرائٹس (Lupus Nephritis) ہے، جو حضرات کی نسبت خواتین کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس مرض میں جسم کا مدافعتی نظام متاثر ہوجاتا ہے۔

مریض مختلف اتار چڑھائو سے گزرتا ہے۔ یعنی مریض کبھی مرض کی شدّت جھیلتا ہے، تو کبھی خود کو صحت مند محسوس کرتا ہے۔ اگر اس عارضے سے متاثرہ خواتین صحت یابی کے دورانیے میں حاملہ ہوجائیں، تو زیادہ تر کیسز میں بیماری کی شدّت پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔

گُردوں کے عوارض میں مبتلا مریضوں کو دو گروپس میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلے گروپ میں وہ مریض شامل ہیں، جنہیں باقاعدہ ڈائی لیسسز کی ضرورت پڑتی ہے، جب کہ دوسرے گروپ میں شامل مریضوں کے گُردوں کی کارکردگی اس حد تک متاثر نہیں ہوتی کہ انہیں ڈائی لیسسز کی ضرورت پڑے۔

تاہم، وہ خواتین، جو شادی سے قبل گُردوں یا پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا شکار ہوں، ان میں ڈائی لیسسز کا عمل جلد شروع ہوسکتا ہے، جب کہ حاملہ ہونے کی صورت میں خون کادبائو خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں گُردے تیزی سے خراب ہوسکتے ہیں۔

نیز، گُردوں کے عوارض کی شکار خواتین میں اسقاطِ حمل، قبل از وقت پیدایش اور بچّے کے کم زور ولاغر پیدا ہونے جیسی دیگر پیچیدگیوں کی شرح بھی بُلند پائی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تصوّر عام ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنا گُردہ عطیہ کردے گا، تو حمل ٹھہرنے میں دقت پیش آتی ہے، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ گُردہ عطیہ کرنے والی خواتین، عام عورتوں ہی کی طرح ازدواجی زندگی بسر کرسکتی ہیں اور بغیر کسی ڈر و خوف کے زچگی کا عمل انجام دے سکتی ہیں۔ تاہم، گُردے کی پیوندکاری کی صورت میں بہتر ہوگا کہ حاملہ ہونے سے قبل معالج سے مشورہ کرلیا جائے۔

کیوں کہ اوّل تو ان کی بغض ادویہ میں ردوبدل ضروری ہے۔ دوم، اگر ماضیِ قریب میں گُردے کسی خرابی سے دوچار ہوئے ہیں، تو کچھ عرصہ آرام کرنا ضروری ہے۔ سوم، اگر پیوندکاری کے بعد گُردے کی کارکردگی بہت زیادہ اچھی نہ ہو، تو حمل کی صورت میں وہ تیزی سے خراب ہوسکتا ہے۔

گُردوں کے عوارض سے محوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ابتدا ہی سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ جیسا کہ موٹاپا، زیادہ دیر بیٹھے رہنا اور ورزش نہ کرنا جیسے عوامل گُردوں کی خرابی کا سبب بنتے ہیں، تو اس حوالے سے طرزِ زندگی میں تبدیلی ضروری ہے۔ ورزش بالخصوص پیدل چلتے کو ترجیح دیں۔ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں، خصوصاً موسمِ گرما میں۔

فاسٹ فوڈز، کولڈ ڈرنکس کا استعمال کم کریں۔ درد کُشا ادویہ معالج کی مشورے کے بغیر استعمال نہ کریں۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔

سال میں ایک بار گُردوں کی کارکردگی کی جانچ کے لیے معالج کی ہدایت پر خون اور پیشاب کا ٹیسٹ ضرور کروائیں۔ اگر ذیابطیس یا بُلند فشارِ خون کا عارضہ لاحق ہے، تو فشارِ خون اور خون میں شکر کی مقدار حد سے بڑھنے نہ دیں۔ اگر خدا نہ خواستہ گُردے میں کوئی تکلیف محسوس ہو، تو فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کریں، کیوں کہ ابتدائی تشخیص اور بروقت علاج کے ذریعے متعدد پیچیدگیوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو جن بے شمارنعمتوں سے نوازا ہے ،اُن میں ایک بیش بہا نعمت گُردے بھی ہیں، جو خون سےفاسد مادّے الگ کرنے سمیت کئی افعال بغیر کسی تعطّل کے انجام دیتے ہیں۔ عام طور پر خواتین کو صحت کے گونا گوں مسائل کا سامنا رہتا ہے اور اگرخاص طور پر گُردوں کے حوالے سے بات کی جائے، تواس ضمن میں بھی انھیں کئی عوارض گھیرے رہتےہیں، جن میں دورانِ زچگی ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب اچانک گُردوں میں شدید خرابی اور پیشاب کی نالی کی سوزش وغیرہ شامل ہیں۔

نیز،کچھ ایسی عادات بھی ہیں، جو گُردوں کے مسائل کو جنم نہیں دیتیں، تو بڑھانے کا سبب ضروربنتی ہیں۔ جن میں سرِفہرست کم پانی پینا ہے۔ خاص طور پر موسمِ سرما میں تو پانی نہ پینے کے برابر ہی پیا جاتا ہے۔ گُردے انسانی جسم میں میٹابولزم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضر مادّوں کو خون سے الگ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ جسم میں رقیق مادّوں کا توازن برقرار رکھنے اور حیاتیاتی کیمیائی مادّوں کا تناسب متوازن رکھنے کا بھی اہم کام انجام دیتے ہیں۔ ہمارے گُردے عموماً ایک دِن میں180تا200لیٹر خون صاف کرتے ہیں۔اس اعتبار سے اگرکسی فرد کے جسم میں8لیٹر خون موجودہو، تو دِن بَھر میں25،جب کہ سال بَھر میں9,125مرتبہ قدرتی طور پر ڈائی لیسسز کا عمل انجام پاتا ہے اور اگر عُمر اوسطاَ60 سال ہو، تو 5,47,500 بار ڈائی لیسسز ہوتا ہےاور اس سارے عمل پر کسی قسم کے اخراجات بھی نہیں آتے۔

اس کے برعکس اگر اتنے طویل عرصے تک مصنوعی طریقے سے ڈائی لیسسز کا عمل انجام پائے، تو کروڑوں روپے خرچ ہوجائیں۔دراصل دِل کی نالیوں کی طرح گُردوں کی نالیاں بھی ہائی بلڈ پریشر یا دیگر امراض کی وجہ سے سخت اور موٹی ہو جاتی ہیں اورجب یہ نالیاں پوری مقدار میں خُون فراہم نہیں کرتیں، تو گُردے فاسد مادّےخارج نہیں کر پاتے اور اگر یہ صورتِ حال کچھ عرصےتک برقرار رہے، تو گُردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

عموماً گُردے فیل ہونے کی ابتدائی علامات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں۔ البتہ، گُردوں میں سوزش کے سبب کمر کے نچلے حصّے میں درد اور تھوڑی تھوڑی مقدار میں پیشاب کی بار بارحاجت محسوس ہوتی ہے۔نیز، مریض پر نقاہت طاری ہونے کے ساتھ بعض اوقات قے بھی ہوجاتی ہے۔

ایسی صُورت میں مصنوعی طریقے سے فاسد مادّوں کا اخراج کروایا جاتا ہے۔ گُردوں سے دو انتہائی اہم ہارمونز بھی خارج ہوتے ہیں، جنہیں’’ Erythropoietin ‘‘اور ’’Renin‘‘کہا جاتا ہے۔اوّل الذکر ہارمون کے ذمّے سُرخ خلیات کی افزایش میں مدد فراہم کرنا ہے، جب کہ موخر الذکر جسم کا بلڈپریشر کنٹرول کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔علاوہ ازیں،گُردےروزانہ تقریباً دو لیٹر نامیاتی زہر (toxin) اور غیر ضروری پانی بھی خارج کرتے ہیں۔نیز، وٹامن ڈی تھری بنانے کی بھی خاصیت رکھتے ہیں۔

حال ہی میںبرطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق برطانوی خواتین میں گُردوں کے امراض کا ایک اہم سبب موٹاپابھی بن رہاہے۔دورانِ تحقیق حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دس سال میں خواتین میںگُردے کے سرطان کے پھیلاؤ کی شرح 22 فی صد رہی، جوبریسٹ اور جِلد کے سرطان سےبھی زیادہ تھی۔ ماضی میں گُردے کےسرطان کی وجہ تمباکونوشی کو سمجھا جاتا تھا، لیکن اس تحقیق کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ گُردے کا سرطان لاحق ہونے میں موٹاپے کا بھی خاصا عمل دخل ہے۔

نیز، اس عرصے میں پھیپھڑوں کے سرطان کی شرح میں محض4فی صد، جب کہ گُردوں کے سرطان کی شرح میں22فی صد اضافہ دیکھا گیا۔تحقیق کے مطابق، اگرکسی فردخاص طور پر خواتین کا وزن زائدہو،تو ہارمونز میں تبدیلی واقع ہونے لگتی ہےاور ہارمونز کا یہ عدم توازن بھی سرطان کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے دنیا بَھر میں گُردے کے سرطان کی شرح میں اضافہ ہوا۔

گو کہ یہ شرح خواتین میں زیادہ ہے،لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ موٹاپے کی وجہ سے صرف خواتین ہی گُردے کے سرطان میں مبتلا ہوتی ہیں یا پھر مَردوں کو بھی موٹاپے کے باعث اس سرطان کا اتنا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔تاہم، ترقی یافتہ مُمالک میں فربہ اندام مَردوں کی شرح آٹھ فی صد تھی ،جو کہ بڑھ کر سترہ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔

گُردے کے سرطان کی سب سے اہم اور ابتدائی علامت پیشاب کے ذریعےخُون کا اخراج اور بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی ہے، جب کہ دیگر علامات میں کمر کے نچلے حصّے میں درد، بُلند فشارِ خُون، بخار اور ٹانگوں کا ورم وغیرہ شامل ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بھی موٹاپے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے ماہرین گُردوں اور مثانے کے امراض میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ایک عام سا سوال تقریباً ہر فرد کے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ ایک دِن میں کتنا پانی پیا جائے،تو اس ضمن میں ماہرین نے ایک طریقۂ کار وضع کیا ہے، جس کے مطابق اپنے وزن (پاؤنڈز میں) کو60 سے تقسیم کریں، جو جواب آئے، اتنے لیٹر پانی روزانہ پینا مفید ہے۔

مثال کے طور پر ایک فرد جس کا وزن 150پاؤنڈز ہے،وہ جب اپنے وزن کو60سے تقسیم کرے گا، توجواب 150/60=2.5 آئے گا۔یعنی مذکورہ فرد کو روزانہ ڈھائی لیٹر پانی پینا چاہیے۔ واضح رہے کہ موسمِ گرما میں حاصل جواب میں مزید ایک لیٹر کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

گُردوں کی کاردگی جانچنےکے لیے ماہرین نے ایک سوال نامہ بھی ترتیب دیا ہے، جسے پُر کرکے بہت حد تک مرض کی تشخیص ممکن ہے۔

٭خاندان میں کسی کو ذیابطیس،ہائی بلڈ پریشر یا گُردوں کا عارضہ لاحق ہے؟ ٭غذا میں نمک یا نمکین اشیاء کا استعمال زیادہ ہے؟٭قد اور عُمر کے لحاظ سے وزن زائد ہے؟٭کیاتمباکونوشی کی علّت میں مبتلا ہیں؟٭عمومی طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں؟ ٭باقاعدگی سے ورزش کرتےہیں؟٭سر میں مستقل درد رہتا ہے؟٭کیانظر آہستہ آہستہ کم زورہو رہی ہے؟ ٭درد کُشا ادویہ استعمال کرتے ہیں؟٭کیا معمولی مشقّت کے بعد سانس پھول جاتا ہے؟٭کیا آپ کی عُمر 65 سال سے زائد ہے؟ ٭کام کے بوجھ کی وجہ سے بہت زیادہ نروس ہو جاتے ہیں؟ ٭زیادہ دیر تک بیٹھے رہتے ہیں؟ ٭کیا آپ سنِ یاس کے دور سے گزر رہی ہیں؟٭مانع حمل ادویہ استعمال کر رہی ہیں؟ ٭ایام میں بےقاعدگی پائی جاتی ہے؟گر نصف سے زائد سوالات کے جوابات’’ ہاں ‘‘میں ہیں ،تو معالج سے فوری رابطہ ضروری ہے، تاکہ گُردوں کے امراض لاحق ہونے کے امکانات کم کیے جاسکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: