ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف عدالت میں کس نے کیا کہا؟

چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار ،مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اور مسٹر جسٹس منظور احمد ملک پر مشتمل بنچ نے زینب قتل کیس کے ملزم عمران علی کے بینک اکاﺅنٹس اور بچوں کی بے حرمتی کی ویڈیوز بنانے والے گینگ سے اس کی وابستگی سے متعلق اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعویٰ کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جوصرف ڈاکٹر شاہد مسعود کے بیان کی حد تک تحقیقات کرے گی جبکہ زینب قتل کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی بدستور اپناکام کرتی رہے گی ۔اس کیس کی سماعت کے دوران میڈیا مالکان اور صحافت کے بڑوں نے عدالتی حکم پر پیش ہوکر تجاویز بھی دیں ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس کیس کو نظیر بنائیں گے ۔انہوں نے خبر غلط ثابت ہونے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کے تین آپشن بھی عدالت میں بیان کئے۔،انہوں نے مزید ریماکس دیئے کہ اب کسی معاملے پر جوڈیشل کمشن نہیں بنایا جائے گا بلکہ تفتیش ہوگی جو کہ قانونی طریقہ کار ہے ،ہم نے جوڈیشل کمشن بنانے پر پابندی لگا دی ہے ۔وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی ہدایت پر آئندہ کوئی جوڈیشل کمشن نہیں بنایا جائے گا،جوڈیشل کمشن سے کچھ نہیں نکلتا بلکہ معاملہ “کھوہ کھاتے “میں چلا جاتا ہے ۔

عارف حمید بھٹی کی طرف سے وزیراعظم اور سابق وزیراعظم کی طرف سے عدلیہ پر تنقید کے خلاف ازخود نوٹس نہ لئے جانے کا شکوہ کیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے ہمیں عدلیہ کی تضحیک پر ازخود نوٹس لینے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ضرورت پڑی تو اس کا بھی نوٹس لیں گے ،چیف جسٹس نے کہا کہ صحافت کی آزادی ہمیں بہت عزیز ہے اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ،ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک سینئر وکیل نے کہا کہ ہمیں اس کیس میں عدلیہ سے انصاف کی امید ہے ،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ امید کیا ہوتی ہے ؟عدلیہ سے انصاف کی امید نہیں بلکہ یقین ہونا چاہیے ۔ہم یقین دلا رہے ہیں کہ عدلیہ انصاف کرے گی ۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدلیہ ہے تو جمہوریت ہے اور جمہوریت ہے تو عدلیہ ہے ،ہم نہیں بلکہ آئین سپریم ہیں ہم کسی ادارے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے جہاں خرابی ہوتی ہے وہاں توہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے ۔عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو تین مرتبہ موقع دیا تاہم وہ کوئی ثبوت پیش کرسکے اور نہ ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹے ،انہوں نے کہا کہ مجھے پنجاب پولیس پر اعتبار نہیں ،اگر کل کسی بچی کی کوئی ویڈیو نکل آئی تو پھر کیا ہوگا ؟زینب کی پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی اجتماعی بے حرمتی کی گئی جبکہ ملزم صرف ایک پکڑا گیا ہے ،یہ سارامعاملہ مشکوک ہے ۔میں نے خبر نہیں اطلاع دی تھی ،میں انہیں چھوڑوں گا نہیں ،ایک موقع پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو میں چلا جاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو ایسے نہیںجانے نہیں دیں گے ،میرا اپنا کام کرنے کا طریقہ ہے ،آپ کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا جاسکتا ہے جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کہا کہ میں راﺅ انوار کی طرح نجی طیارے میں فرار ہوجاﺅں گا۔چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ کے معاملے میں جے آئی ٹی بنا دی ہے اس کے سامنے پیش ہوں ۔چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے یہ بھی کہا کہ آپ جو بیان دے رہے ہیں ،آپ کو اندازہ بھی ہے کہ اس کا کیس کی تفتیش پر کیا اثر پڑے گا۔چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا کہ اگر ان کی خبر درست نکلی تو انہیں سپریم کورٹ کی طرف سے سرٹیفکیٹ دیا جائے گا ،اگر یہ خبر غلط ہوئی تو پھر آپ آئندہ کسی غلطی کے قابل نہیں رہیں گے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود جب تیسری مرتبہ روسٹرم پر آئے تو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے جیل بھیج دیں یا پھانسی پر لٹکادیں میں اپنی بات پر قائم ہوں ۔ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کو عدالتی دباﺅ پر قبول کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پنجاب حکومت کا کوئی بندہ اس میں شامل نہیں کیا ،ہم نے انتہائی ایماندار اور جانبدار شخص کو جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا ہے اس کے دو مزید ارکان ہوں گے جوہم ایک دو دن میں ڈھونڈ لیں گے ۔اس سے قبل پاکستان براڈکاسٹرزایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں عامر محمودنے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے نہیں تھے ،ایک شہری اور باپ کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ بچوں کی ویڈیوز سے متعلق جو خبر چلائی گئی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی ،اس خبر سے زینب کے والد پر کیا گزری ہوگی اور ان والدین پر کیا گزری ہوگی کہ ان کی بچیوں کی ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں ،عدالت جو فیصلہ کرے گی ہم اس کے ساتھ ہیں ۔اس موقع پر میاں عامر کی آواز شدت غم سے رندھ گئی اور فاضل بنچ نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں بیٹھنے کے لئے کہا ۔

سینئر صحافی اور روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ نے کسی خبر کے غلط یا صحیح ہونے کا نوٹس لیا ہے ۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک منٹ رکیں ،میں حامد میر سے پوچھ لوں کہ کہیں ہم اپنے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کررہے ،اس پر مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آپ کا دائرہ اختیار آسمان کی طرح وسیع ہے ،آپ نے جو جے آئی ٹی بنائی ہے وہ درست اقدام ہے اور آپ نے جو کہا ہے کہ اگر خبر درست ہوئی توسرٹیفکیٹ دوں گااور خبر غلط ثابت ہونے پر سزا بھی مثالی ہوگی میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس خبر غلط ثابت ہونے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف کارروائی کے لئے تین آپشن ہیں ،نمبر ایک یہ کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے ،نمبر دو انہیں توہین عدالت کے تحت سزا دی جائے اور تیسرا یہ کہ جھوٹی دستاویز بنا کر عدالت میں پیش کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193کے تحت کارروائی کی جائے ۔سینئر صحافی ضیاءشاہد نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر کی تائید کی اور کہا کہ بچوں کے ویڈیوز کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ۔اینکر پرسن چودھری غلام حسین نے کہا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ قابل تشویش ہیں۔ایک ڈاکٹر شاہد مسعود کی وجہ سے سب جرنلسٹ کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑاہے،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگوں نے جب ڈاکٹر شاہد مسعود کی تردید کا سلسلہ شروع کیا تو پھر ہم نے آپ کو زحمت دی ۔چودھری غلام حسین نے کہا کہ صحافت میں میکنزم ہوناچاہیے ،ججوں پر کھل کر تنقید ہورہی ہے ،موجودہ اور سابق وزیراعظم روزانہ عدلیہ کے خلاف بولتے ہیں لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر جج محفوظ نہیں تو دوسروں کی عزت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ازخود نوٹس لیں گے اور پھر ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا۔

سینئر اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو تین آپشن دیئے ہیں ،ایک چوتھا آپشن معافی کابھی موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کا ایک موقع ہوتا ہے آپ کے خیال میں یہ کون سا موقع ہے ؟ حامد میر نے کہا کہ معافی کا آج ہی موقع ہے ۔حامد میر نے کہا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے حوالے سے ہمارا ایک کیس زیرسماعت ہے جس کی ڈیڑھ سال سے شنوائی نہیں ہوئی ،چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کی سماعت کے لئے 5رکنی فل بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے جس کی سربراہی میں خود کروں گا۔حامد میر نے کہا کہ پیمرا حکومتی اثر ورسوخ میں اور کمزور ادارہ ہے ،خبر کی تردیداور معافی مانگنے سے صحافی کا قد چھوٹا نہیں ہوتا،سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ اس معاملے میں صرف ڈاکٹر شاہد مسعود ہی نہیں بلکہ ان کا چینل اور چینل کا ملک بھی ذمہ دار ،چینل کو بھی سزا ملنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ایڈیٹوریل بورڈ ختم ہوتے جارہے ہیں ۔اینکر پرسن عارف حمید بھٹی نے کہا کہ کالے دھن کے تحفظ کے لئے بہت سے اجنبی صحافت میں آگئے ہیں ۔اینکر پرسن نسیم زہرہ نے کہاکہ ڈاکٹر شاہد مسعود سے قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے عدالت فیصلہ کرتے ہوئے ہم سے نہ پوچھے ۔غلطی مجھ سے بھی ہوسکتی ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نسیم زہرہ غلط خبر نہیں دے سکتی ۔سینئر صحافی عارف نظامی نے کہا کہ اگر ایجنڈے سے بالاتر ہوکر صحافت نہیں ہورہی تو شرمندہ ہونا چاہیے، اگر خبر درست نہیں تویہ صحافت کا جنازہ ہے۔اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ہم نے تو یہی سیکھا ہے کہ لفظ کی حرمت کیا ہے جو کچھ ہوا یہ نفسیاتی دہشت گردی ہے ،چینلز میں ایجنڈا پروموٹ کیا جاتا ہے ۔یہ از خود نوٹس کیس میڈیا کی تطہیر کا باعث بن سکتا ہے ،انہوں نے کہا کہ آج صحافت کا جنازہ ہے ،زرا دوم سے نکلے ۔اینکر پرسن سید فہد حسین نے عدالت سے گزارش کی کہ یہی وقت ہے کہ میڈیا کا رول واضح ہونا چاہیے، معاملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی خوش آئند ہے اس سے صحافت پر مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

 

اینکرپرسن کامران خان نے صحافتی اقتدار کے حوالے سے کہ میڈیا اپنے کردار سے تجاوز کررہا ہے ،جب میڈیا پرچیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیر اعظم کی عزتیں محفوظ نہیں تو عام آدمی کی کیسے ہوسکتی ہیں؟ اینکر پرسن کاشف عباسی کا کہنا تھا دنیا بھر کے کسی بھی نیوز چینل میں بغیر تصدیق خبر شایع نہیں ہوتی، اگر خبر غلط ہوتو فوری طور پر جرنلسٹ کو نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریٹنگ کی ایک دوڑ ہے جو میڈیا پر لگی ہوئی ہے ،سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ ایک جھوٹ کے لئے سچ پر پابندی نہیں لگنی چاہیے ،میڈیا کی آزادی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ،صحافت ابھی ترقی پذیر ہے ۔آفتاب اقبال نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر شاہد مسعود کے کردار پر کوئی شک نہیں ہے لیکن اس ایشو پر میرا ان سے اختلاف ہے ۔سینئر صحافی سلیم بخاری نے کہا کہ پینڈورا باکس نہیں کھلنا چاہیے ،ایک مرتبہ فیصلہ کرلیں جو آنے والی نسلوں کے لئے نظیر ہو۔

اینکر پرسن منصور احمد خان نے کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ پروگرام کیا تھا ،ڈاکٹر شاہد مسعود میرے مہمان تھے ،میں نے ان سے متعدد بار کہا کہ اگر آپ کی خبر درست ہے تو کم ازکم عمران کا ایک اکاﺅنٹ نمبر بتادیں ،عدالت نے جے آئی ٹی بنا دی ہے ،میری استدعا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا جائے کہ وہ 5اکاﺅنٹ نمبر بتائیں ،منصور احمد خان نے مزید کہا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے خلاف مہم پر دو ارب روپے خرچ کرنے کا الزام بھی لگایا ،انہیں میں نے اور ایک خاتون اینکر نے اپنے پروگراموں میں بلایا تھا ،ہمارے کردار کے حوالے سے بھی جے آئی ٹی کو تحقیق کا اختیار دیا جائے کیوں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے کرپشن کے الزام کی زد میں ہم بھی آتے ہیں ۔چیف جسٹس پاکستان مسٹرجسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالت میں پیش ہونے والے تمام صحافیوں کے نام لے کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ یہاں آئیں اور عدالت کی معاونت کی

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: