تحریر: نوید نسیم
لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے 41 جماعتی احتجاج وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ کا استعفی لینے میں تو کامیاب نہیں رہا۔ لیکن عوامی مسلم لیگ کے بے بس اور لاچار سربراہ شیخ رشید جذبات کی تاب نہ لاتے ہوئے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے۔
شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے استعفوں کا مطالبہ کرنے والے ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی 14 ہلاکتوں کے انصاف کا مطالبہ کررہے تھے۔ تاہم سربراہ پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر علامہ طاہر القادری اس رکنِ قومی اسمبلی کو مستعفی کروا بیٹھے۔ جنھیں علامہ صاحب نے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کا مین آف دی میچ قرار دیا تھا۔
چند گھنٹوں کے دھرنے کے دوران شیخ رشید نے اُس پارلیمنٹ سے استعفی دیا۔ جس پارلیمنٹ کو دھرنے کے روحِ روّاں عمران خان نے “لعنت” کا مستحق گردانا۔ جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہوا کہ اس پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے لعنتی ہیں۔ جو کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر 5 سالوں کیلئے “لعنتی” منتخب ہوتے ہیں۔
شیخ رشید نے سیاسی غیرت مند ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اُس لعنتی پارلیمنٹ سے مستعفی ہوگئے۔ جس کے 33 اراکین اسمبلی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور عمران خان خود آج کی تاریخ تک رکن ہیں اور جس کے لئے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی اگلے عام انتخابات میں حصّہ لیں گے۔
عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مستعفی ہوکر ثابت کردیا کہ وہ پچھلے ساڑھے چار سالوں تک اس لعنت والی پارلیمنٹ کے رکن تھے لیکن چونکہ اب شیخ رشید کے سیاسی پیر نے اس پارلیمنٹ کو لعنت سے نوازا ہے۔ چنانچہ شیخ رشید مزید اس لعنتی پارلیمنٹ کا حصّہ نہیں رہ سکتے۔ حالانکہ جس کا حصّہ لعنت بھیجنے والے عمران خان ابھی تک ہیں۔
شیخ رشید کے استعفی کے بعد آئینی طور پر حلقہ این اے 55 راولپنڈی 6 میں ضمنی انتخاب ہوگا۔ جس میں پھر سے ایک بار مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہوگا۔ جس کی سپورٹ شیخ رشید کو 2013 کے انتخابات میں حاصل تھی۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ شیخ رشید اپنے اس آبائی حلقے سے اس ضمنی انتخاب میں حصّہ لیں گے اور اگر حصّہ لیں گے تو پھر وہ مستعفی کیوں ہوئے اور کیوں اس پارلیمنٹ کے لئے ضمنی انتخاب میں حصّہ لیں گے۔ جس پر عمران خان لعنت بھیج چکے ہیں۔
لیکن اگر سوچا جائے کہ شیخ رشید کے استعفی کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر نواز لیگ کامیاب ہوگئی۔ تو کیا ہوگا؟۔
موجودہ حالات اور اگلے عام انتخابات سے پہلے ماحول دیکھ کر لگتا ہے کہ شیخ صاحب نے جذباتی ہوتے ہوئے تھوڑی جلدی کردی۔ کیونکہ اگر شیخ صاحب 31 جنوری تک انتظار کرلیتے۔ تو اچھا تھا۔ کیونکہ عام انتخابات کے انعقاد میں 120 دن باقی رہ جانے پر ضمنی انتخابات نہیں ہوسکتے۔ لہذااگر شیخ صاحب موجودہ اسمبلیوں کی 31 مئی کو پوری ہونے والی مدّت کے 120 دن سے کم باقی رہنے پر یعنی کہ 31 جنوری کے بعد مستعفی ہوتے تو حکومت این اے 55 میں ضمنی انتخاب نا کرواسکتی۔
لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے دھرنے میں اندیشہ تھا کہ تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اسمبلیاں توڑنے اور مستعفی ہونے کا اعلان کردیں گے۔ تاکہ سینیٹ انتخابات کو ملتوی کروایاجاسکے۔ لیکن چونکہ عمران خان اور آصف زرداری شیخ رشید کی طرح جذباتی نہیں ہیں۔ لہذاوہ آئینی قد غن کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اگر مستعفی ہوئے بھی تو 31 جنوری کے بعد ہوں گے۔ تاکہ ضمنی انتخابات نا ہوسکیں۔
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ابھی مستعفی ہوں یا پھر 31 جنوری کے بعد سوال یہ ہے کہ عمران خان جس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج چکے وہ پچھلے ساڑھےچارسال کیوں اس پارلیمنٹ کا حصّہ رہے۔ مزید یہ کہ وہ اور ان کے دیگر رہنما اگلے انتخابات میں کس پارلیمنٹ کا رکن بنے کیلئے حصّہ لیں گے۔ اُس پارلیمنٹ کیلئے جس پر وہ لعنت بھیج چکے ہیں اور کیا وہ اُس پارلیمنٹ کے قائد ایوان بنا چاہتے ہیں۔ جو کہ لعنتی ہے؟