بغیر نگرانی کے نیب اختیارات بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے ‘بغیر نگرانی’ کے اقدامات کو آئین کے تحت عوام کو ملنے والے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ڈائریکٹر جنرل عبدالصمد اور ڈائریکٹر امجد مصطفیٰ ملک کی براڈ بینڈ سیلیولر ٹیکنالوجی 4 جی کی نیلامی کے حوالے سے کیس میں ضمانت کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق پی ٹی آے حکام کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت قبل از گرفتاری دے دی تھی۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات کے لیے صلاحیت نہ رکھنے والے افسران کی تحقیقات میں خامیوں کی نشاندہی کی،

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ‘گرفتاری کے اختیار کا منصفانہ، برابری اور بلا امتیاز استعمال کیا جانا ہے، ملزم کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کے لیے کافی مبہم مواد ہونا ضروری ہے، ‘مکالمہ آمیز مواد’ اس نوعیت کا ہونا ضروری ہے جو 1999 کے آرڈیننس کے تحت جرائم کے کمیشن میں ملزم کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرے، ریکارڈ پر لائے گئے مواد میں غیر قانونی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ اس میں شریک ہونے کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ورنہ ایک ملزم کی گرفتاری 1999 کے آرڈیننس کے تحت گرفتاری کے اختیارات کا غلط استعمال ہوگی’۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ‘اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کسی ملزم کو آزادی کے حق سے محروم کرنے کا جواز پیش نہیں کریں گے کیونکہ کسی بے ضابطگی یا غلط فیصلے سے مجرمانہ ارادے ظاہر نہیں ہوتے، 1999 کے آرڈیننس کے تحت گرفتاری کے اختیار کو بلا امتیاز، لاپرواہی یا غیرذمہ دار طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ آئین کے تحت متضاد بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ‘نیب انکوائری یا چھان بین کے دوران کسی ملزم کی گرفتاری کا حکم دینے کے اختیار سے نہ صرف نقصان دہ اثرات سامنے آتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ پر بھی مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں’۔

واضح رہے کہ ضمانت حاصل کرنے والے درخواست گزاروں نے نیب کے چیئرمین کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے اختیارات پر بھی سوال اٹھایا تھا اور ایگزیکٹو پاور کے عدالتی جائزے کی درخواست کی تھی جس کے تحت انھیں آزادی کے حق سے محروم کرنا تھا۔

نیلامی کیس
احتساب ادارے کے مطابق نیب چیئرمین نے ذرائع کی رپورٹ پر 16 اکتوبر 2018 کو تحقیقات کے احکامات دیے تھے جبکہ تحقیقات کی اجازت دینے سے قبل انکوائری نہیں کی گئی تھی۔

تحقیقات ایم/ایس وارد ٹیلی کام کو فائدہ پہنچانے کے لیے 4 دسمبر 2014 کو 4جی/ ایل ٹی ای (1800 ایم ایچ زیڈ) کے استعمال کی اجازت دینا تھا۔

الزام لگایا گیا کہ سیلیولر کمپنی کو 4جی/ایل ٹی ای ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دی کر پی ٹی اے حکام نے غیر قانونی فائدہ حاصل کیا جس 51 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔

عدالت نے وفاقی کابینہ سے یکم جنوری 2004 کو موبائل سیلولر پالیسی کی منظوری کے بعد 10 جنوری 2004 کو ٹیلی کمیونکیشن سیکٹر کے لیے ڈی ریگولیشن پالیسی کو اٹھایا۔

پارلیمنٹ احتساب کے عمل کی نظر ثانی کرے گی
عدالت نے اپنے احکامات میں کہا کہ نیب آرڈیننس کے تحت ایگزیکٹو پاورز پر منصفانہ، مساوی، اصولوں اور قانون کے تابع طریقوں سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

کہا گیا کہ ‘بدعنوانی سے پیدا ہونے والی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے، شفاف انداز میں بورڈ کا احتساب اور امتیازی سلوک سے آزاد اور اختیارات کا صوابدیدی استعمال ناگزیر ہے وہیں وائٹ کالر جرائم سے نمٹنے کے لئے تفتیش کاروں اور استغاثہ کی پیشہ ورانہ تربیت، قابلیت اور مہارت بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

حکم میں مزید کہا گیا ہے ‘ہم توقع کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) احتساب کے عمل کو موثر، شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے پر غور کریں گے اور بیورو کو چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تقویت گی جس کے لیے یہ قائم کیا گیا ہے۔

x

Check Also

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

سلام آباد:مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور ...

%d bloggers like this: