افغانستان کے ساتھ باہمی مسائل کے حل کیلئے امریکا کی ضرورت نہیں، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کو پاکستان سے لاحق تحفظات امریکا کو شامل کرنے کے بجائے باہمی طور پر حل کیے جائیں گے۔

انہوں نے یہ بات افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا-افغان مشترکہ اعلامیے کے تناظر میں کہی۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلامیہ ہفتے کے روز افغان صدر اشرف غنی، امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ نے دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے سے مطابقت پر ایک تقریب میں جاری کیا۔

اس اعلامیے کی ایک شق میں کہا گیا کہ ’امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں سہولت کاری کا وعدہ کیا ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دونوں ممالک میں سے کسی کی سیکیورٹی کو دوسری طرف کی سرزمین سے کسی بھی کاروائی کا خطرہ نہ ہو‘۔

شاہ محمود قریشی نے رائٹرز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کےافغانستان سے فوجی انخلا کے ارادے کے پیش نظر کہا کہ ’انہیں پاکستان سے براہ راست مذاکرات کرنے چاہیئے، امریکا انخلا کی منصوبہ بندی کررہا ہے جبکہ ہم ہمیشہ پڑوسی رہیں گے‘۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اگر مجھے افغانستان سے کوئی مسئلہ ہوا تو میں واشنگٹن سے کردار ادا کرنے کے لیے نہیں کہوں گا‘۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان سالوں سے جھگڑتے آئے ہیں، کابل کی جانب سے سرِ عام پاکستان پر طالبان رہنماؤں کو 2001 میں ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد پناہ فراہم کرنے اور بین الاقوامی اور افغان فورسز کے خلاف حملے کرنے کے لیے محفوظ مقامات بنانے کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور افغانستان پر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پاکستان میں حملے کرنے کے لیے پناہ دینے کا الزام عائد کرتا ہے کس کی کابل تردید کرتا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ اعتماد کی کمی موجود ہے اور پاکستان نے اعتماد کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی طرف دیکھنے کے بجائے ایک ادارہ جاتی میکانزم موجود ہے جس کے ذریعے افغانستان ’کوئی بھی مسئلہ‘ اٹھاسکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ دوحہ میں ہونے والے امریکا- طالبان کبھی نہ ہوتا اگر پاکستان ہر کسی کو اس بات پر قائل نہ کرتا کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔

یاد رہے کہ دوحہ معاہدے پر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کے تحت امریکا نے 14 ماہ کے عرصے میں افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا کا وعدہ کیا ہے جبکہ اس کی اتحادی افواج بھی اس پر عمل کریں گی جبکہ طالبان نے پرتششد کارروایاں روکنے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے والی عسکری تنظیموں سے تعلقات ختم کرنے کا عزم کیا۔

x

Check Also

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

سلام آباد:مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور ...

%d bloggers like this: