اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سلیم اللہ خان کی جانب سے عمران خان کی تقریر کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
واضح رہے کہ درخواست گزار کی جانب سے عمران خان کی اس تقریر کا حوالہ دیا گیا ہے جو انہوں نے ہزارہ موٹروے کے حویلیاں مانسہرہ سیکشن کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی۔
عمران خان نے اس تقریر کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد سے کہا تھا کہ وہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔
عمران خان کا یہ بیان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے چند روز بعد سامنے آیا تھا جس میں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
اس درخواست پر آج ہونے والی سماعت میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وزیراعظم کی تقریر سے آپ کو کیا پریشانی ہے؟ کیا آپ منتخب وزیراعظم کا ٹرائل کرانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اس کے نتائج سے آگاہ ہیں؟ کیا آپ وزیراعظم کو نااہل کرانا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے عدلیہ کی تضحیک کی۔
درخواست گزار کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں تنقید کو خوش آمدید کہتی ہیں، اس پر سلیم اللہ خان نے جواب دیا کہ تنقید اور تضحیل میں فرق ہوتا ہے۔
جس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت فرد اور عدالت کے درمیان ہوتی ہے، اس حوالے سے عدالت نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ میں آفیسر آف دی کورٹ ہوں اور عدالت کو آگاہ کر رہا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے توہین عدالت کا گرشتہ روز والا فیصلہ پڑھا ہے جس میں توہین عدالت کے حوالے سے اصول طے کر دیے ہیں، پہلے آگاہی نہیں تھی، ابھی تو توہین عدالت کے حوالے سے آگاہی بھی ہو گئی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سلیم اللہ خان کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے آج ہی سنائے جانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایڈووکیٹ سلیم اللہ خان وزیراعظم عمران خان کی اعلیٰ عدلیہ سے متعلق تقریر پر ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا تھا کہ 18 نومبر کو عمران خان کی تقریر میں اعلیٰ عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی گئی۔
عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ وزیراعظم کی تقریر توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس تقریر کی ٹرانسکرپٹ کو بھی درخواست سے منسلک کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس درخواست میں قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔