وزیر اعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن اور اپوزیشن کی جانب سے وزارت عظمیٰ سے استعفے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ملک کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور مشکلات سے نکال کر دکھائیں گے۔
وزیر اعظم نے اسلام آباد میں سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات کے دوران کہا کہ ‘جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا مخصوص ایجنڈا ہے، بھارت پہلے مولانا حضرات کے خلاف تھا اور آج دھرنے پر خوشیاں منا رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر اپوزیشن کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی گئی تو ہم بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں’۔
وزیر اعظم کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب آج ہی وفاقی حکومت نے جے یو آئی (ف) کو اسلام آباد میں ‘آزادی مارچ’ منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
صحافیوں اور اینکر پرسنز سے خصوصی گفتگو میں عمران خان نے واضح کیا کہ ‘میڈیا پر مولانا فضل الرحمٰن کے انٹرویو اور خبر چلانے پر کوئی پابندی نہیں’۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے دھرنے کا تحریک انصاف کے گزشتہ حکومت کے خلاف دھرنے سے موازنہ کیے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے اس طرح دھرنا نہیں دیا تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو صرف این آر او چاہیے لیکن مولانا صاحب کا مسئلہ کیا ہے یہ سمجھ میں نہیں آرہا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اپوزیشن کی ہر جماعت مختلف بات کر رہی ہے، نہیں معلوم ان کا ایجنڈا کیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے مگر احتجاج قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘مولانا صاحب کبھی مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں تو کبھی کچھ اور کہتے ہیں، استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میں ہرگز استعفیٰ نہیں دوں گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مہنگائی اور بیروزگاری اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس پر حکومت کام کررہی ہے، ملک کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ مشکلات سے نکال کر دکھائیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اپوزیشن کے پاس استعفیٰ مانگنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں، دھرنا پہلے سے طے شدہ ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اپوزیشن بھی ایک پیج پر نہیں ہے، بلاول بھٹو زرداری کچھ اور کہتے ہیں اور شہباز شریف کچھ اور’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ملکی معیشت مستحکم ہوچکی ہے اور ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں اور مستقبل میں روپےکی قدر مزید مستحکم ہوگی’۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘اسرائیل چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں جنگ ہو تاہم پاکستان دونوں مسلم ممالک میں مصالحت کرانے کی کوشش کر رہا ہے، خواہش ہے ایران اور سعودی وزرائے خارجہ کی پاکستان میں ملاقات کراؤں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب اور ایران کی لڑائی ہمارے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہے’۔
کشمیر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے پلواما جیسا ڈرامہ کرسکتا ہے، آرمی چیف کو ہدایت دی ہے کہ فوج مکمل تیار رہے اور جارحیت کی گئی تو بھرپور جواب دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تحریک انصاف کی حکومت نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقومی سطح پر اٹھایا ہے، مسئلہ کشمیر سے متعلق میڈیا سینٹر بھی بنا رہے ہیں’۔
آزادی مارچ
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔
اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد ‘وزیراعظم’ سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان ‘جعلی انتخابات’ کے ذریعے اقتدار میں آئے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔
اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔
ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔
تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔
علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے۔