آصف زرداری، طاہرالقادری سے کیوں ملے؟

الیکشن کے دنوں میں جہاں برادریوں اور جاگیرداریوں کے ووٹ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ان حلقوں کے اُمیدوارگھر گھر تعزیتیں کرتے پھرتے ہیں۔ بھلے یہ اموات برسوں پہلے ہی کیوں نہ ہوئی ہوں۔آصف زرداری کی ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات اور ان سے تین سال قبل ماڈل ٹائون میں ہونے والی ہلاکتوں پر تعزیت کے اظہار سے بھی یہی لگتا ہے کہ الیکشن آنے والے ہیں۔

آصف زرداری سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ زیادہ وقت بیرونِ ملک گزارنے کے باوجود ملکی منظر نامے سے اپنی دُوری کا احساس نہیں ہونے دیتے۔حکومتِ وقت کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کس وقت کوئی مخالفانہ ہوا چلے اور علامہ اُسے اپنے لیے موافق سمجھتے ہوئے اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں پر خیمہ زن ہو کر ریاست اور اس کی عملداری کا ناطقہ بند کردیں۔

تاہم آصف زرداری کی طاہرالقادری سے ملاقات کو محض الیکشن کی آمد آمد اور سیاسی توڑ جوڑ کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔مستقبل قریب میں بہت کچھ مائنس، پلس ہونے والا ہے۔کل کے دوست ، دشمن بن سکتے ہیں اور آج کے غیر، آنے والے کل میں اپنے ہو سکتے ہیں۔نوازشریف بظاہرسیاسی تنہائی کی طرف جا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اِس خلا کو پُر کرنے کے لیے دامے ، درمے ،سُخنے دست بستہ تیار کھڑی ہے۔

بلاول بھٹو کی سیاسی بصیرت اور مستقبل کی پیش بندی کچھ اور ہو سکتی ہے لیکن آصف زرداری، نوازشریف کی وزراتِ عظمیٰ سے بے دخلی کے بعد معروضی بیانیے کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔بات صرف طاہرالقادری سے ملاقات تک محدود نہیں رہے گی۔ایک ملاقات شیخ رشید سے بھی ہو سکتی ہے۔چوہدری برادران بھی قومی منظرنامے پر دوبارہ نمودار ہو سکتےہیںاور پھر ایک ایسا سیاسی اتحاد بھی سامنے آسکتا ہے جس میں عمران خان اور بلاول بھٹو ایک ساتھ بیٹھے ہوں۔

ایک کنٹینر پر تو دونوں اکٹھے نہیں ہو سکے تھے لیکن ایک صوفے پر ساتھ بیٹھنے اور آپس میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے گفت و شنید کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔کبھی عمران خان بھی شیخ رشید کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔آج دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔

مخدوم جاوید ہاشمی بھی کبھی نوازشریف کے باغی تھے۔آج پھر اُسی آستانے کی طرف لوٹ گئے ہیں۔مصطفیٰ کمال کی پاکستان سرزمین پارٹی اور فاروق ستار کی ایم کیوایم ،پاکستان کا کردار بھی آنے والے دنوں میں اہم ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر الیکشن لڑتے ہیں یا کسی ایک یا الگ الگ انتخابی اتحادوں کا حصہ بنتے ہیں۔

اگلے سال مارچ میں سینٹ الیکشن سے پہلے بہت کچھ ہونا ہے۔عمران خان سینٹ سے پہلے عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اب پیپلزپارٹی بھی اس مطالبے میں اُن کی ہم آواز دکھائی دیتی ہے۔آصف زرداری کب سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح اِس بار بھی سینٹ میں اکثریت حاصل کرکے دکھائیں گے۔

مشکلات کا شکار مسلم لیگ نون مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں برسرِ اقتدار ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔محمود خان اچکزئی اور مولانافضل الرحمٰن اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مولانافضل الرحمٰن زیرک سیاستدان ہیں۔آج نوازشریف کے شانہ بہ شانہ ہیں تو کل آصف زرداری کے ہم جولی بھی ہو سکتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے پچاسویں یومِ تاسیس کے موقع پر اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں ہونے والے جلسے میں آصف زرداری کے خطاب پر غور کیا جائے تو مستقبل قریب کے سیاسی ایجنڈے کو سمجھنا کچھ اتنا مشکل نہیں۔

انہوں نے ایک تو پہلی مرتبہ نوازشریف کی کھل کر مخالفت کی ۔نگراں حکومت کے قیام سے پہلے ہی حکومت جانے کا عندیہ دیا۔افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا اور بھارت کو متنبہ کیا کہ جب تک پیپلزپارٹی کا ایک بھی کارکن زندہ ہے ۔کشمیر یوں کے حقِ خودارادیت کی جنگ جاری رہے گی۔

اس صورتِ حال میں آصف زرداری کا ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملنا،سانحہء ماڈل ٹائون کی انکوائری رپورٹ کا سامنے آنا، حافظ سعید کی نظربندی ختم ہونے کے بعد عام انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کرنا اور خادم حسین رضوی سمیت بہت سے علماء کے نام فورتھ شیڈول لسٹ سے خارج کرنا،آنے والے دنوں کے سیاسی منظر نامے کی دُھندلی سی تصویر ضرور پیش کرتا ہے۔اسے آپ سیاسی ا سموگ بھی کہہ سکتے ہیںاور اس سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے فروغ میں جس سیاسی جماعتی کا جتنا کردار رہا ہے وہ اپنے اس کردار سے پہلوتہی نہ کرے اور گرینڈسیاسی ڈائیلاگ کی راہ ہموار کی جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: