آٹوموبیل انڈسٹری کے بند ہونے کا اندیشہ

آٹوموبیل انڈسٹری کے بند ہونے کا اندیشہ

پاکستان آٹوموبیل انڈسٹری سنگین بحران کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔

ملک کے بڑے بڑے کار مینوفیکچرنگ پلانٹس نے جزوی بندش کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر حکومت نے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو قومی آٹوموبیل انڈسٹریل مکمل بند ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

موجودہ اعدادو شمار کے مطابق ہنڈا‘ ٹویوٹا اور انکے وینڈرز نے کم و بیش پانچ ہزار کے لگ بھگ ملازمین کو فارغ کیا ہے جبکہ تجارتی بینکوں نے پاکستان بھر میں کار فنانسنگ کا اسٹاف فارغ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک ذریعے کے مطابق کم و بیش اڑھائی ہزار کار فنانسنگ اسٹاف فارغ کر دیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے۔

آٹوموبیل انڈسٹری کے ملکی پلانٹ بند ہونے کی صورت میں مزید ہزاروں خاندان بیروزگاری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہنڈا‘ ٹویوٹا وغیرہ نے اپنی پروڈکشن چالیس سے ساٹھ فیصد کے لگ بھگ کم کر دی ہے۔ ہنڈا کار مینوفیکچررز پلانٹ اور ٹویوٹا کار مینوفیکچرنگ پلانٹ کے پاس بالترتیب تین ہزار اور پانچ ہزار کے لگ بھگ تیار گاڑیاں کھڑی ہیں‘ دونوں جاپانی کار ساز اداروں کی یومیہ پیداواری صلاحیت 212گاڑیاں ہیں مگر ملک میں کاروں کی فروخت میں تاریخی کمی کی وجہ سے ہنڈا اور ٹویوٹا میں کم و بیش پچاس ساٹھ فیصد کاروں کا مینوفیکچر کرنا بند کر دیا ہے۔

اعلیٰ سطح دارالحکومت ذرائع کے مطابق کاروں کی فروخت کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ انکی قیمتیں آسمان تک پہنچ جانا ہے۔ اگرچہ جو کار پہلے پچیس ہزار ڈالرز کی تھی آج بھی پچیس ہزار ڈالر کی ہی ہے مگر پہلے وہ پاکستانی کرنسی میں 27لاکھ کی مل جاتی تھی مگر اب اسکی چالیس لاکھ روپے تک چلی گئی ہے۔ اس سے پاکستانی خریداروں کی قوت خرید تیزی سے کم ہونے لگی ہے۔

آٹوموبیل انڈسٹری انکے ٹرپل sڈیلروں کا تخمینہ ہے کہ آٹوموبیل انڈسٹری کا بحران 31دسمبر 2019ء تک ختم نہ ہو پائے گا بلکہ یہ 2020ء میں بھی جاری رہے گا اور 2021ء میں بھی جا سکتا ہے۔ انکے مطابق اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ نہ ڈالر کی قیمت 157روپے سے کم ہو کر 100سوا سو پر واپس آئے گی نہ ہی KIBOR(کائبر) کا ریٹ 13اعشاریہ پچیس فیصد سے کم ہو کر پچھلے سالوں کی طرح پانچ سات فیصد تک نیچے آ سکے گا۔ اسلئے کار کی قیمت اور انٹرسٹ بڑھنے کی وجہ سے کاروں کی فروخت مزید کم ہو گی۔

پہلے جس پاکستانی کے پاس پانچ دس لاکھ روپے ہوتے تھے تو وہ بینکوں سے لیز پر گاڑی لے لیا کرتے تھے‘ اور انہیں موجودہ 22فیصد سود کی بجائے بہت کم شرح سود ادا کرنا ہوتی تھی۔ اب نئی موٹر کار خریدنا اور 22فیصد سود پر قرضہ لینا انکے بس میں نہیں رہا۔ البتہ جو لوگ کیش پر گاڑی لیتے ہیں وہ بھی اب 27لاکھ روپے والی گاڑی 40لاکھ میں خریدنے کو تیار نہیں ہیں۔

آٹوموبیل انڈسٹری کو حالیہ بحران سے نکالنے کیلئے وزیراعظم عمران خان‘ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور انکی ٹیم کو ہنگامی اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ یہ بڑے کارساز ادارے خدانخواستہ بند ہوتے گئے تو ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جائیگا جو کسی طور بھی پہلے سے مفلوک الحال طبقے کیلئے مناسب نہیں ہو گی۔

کار مینوفیکچرنگ پلانٹوں کی طرح وینڈر انڈسٹری سیلز سپیئر پارٹس اور سروس والے نئی کاروں کی ڈیلروں کا کاروبار بھی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ انہوں نے بھی اپنا سٹاف کم کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ جب کاریں بکنا ہی کم ہو رہی ہی تو انکے سپیئر پارٹس اور سروس کیلئے کم گاڑیاں آنے لگی ہیں حتیٰ کہ ملک بھر کے پرائیویٹ موٹر مکینکوں اور انکی ورکشاپوں میں بھی مرمت کیلئے گاڑیوں کی آمد میں کمی آئی ہے جس سے ان ورکشاپ والوں نے بھی اپنے فاضل غریب ورکروں کو فارغ کرنا شروع کر دیا ہے۔

x

Check Also

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

سلام آباد:مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور ...

%d bloggers like this: