ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جارحیت کرنے والے ملک کو تباہ کرنے کیلئے تیار ہے۔
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ان ممالک کی درخواست پر مزید فوجی دستے اور سازو سامان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکا کے اس اقدام کے بعد ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں گرائے گئے امریکی ڈرونز کی نمائشی تقریب سے خطاب میں میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا کہ ایران جارحیت کرنے والوں کو تباہ کرنے کیلئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک نے بھی ایران پر حملہ کیا اسے ہی میدان جنگ بنادیں گے، ہم کسی بھی جارحیت کرنے والے ملک کا مسلسل تعاقب کریں گے اور اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ مکمل تباہ نہ ہوجائے لہٰذا محتاط رہیں اور غلطی نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو ایران پر جنگ مسلط کرنےکی اجازت کبھی نہیں دیں گے، ایران کی دفاعی صلاحیتیں ابھی سب پر ظاہر نہیں ہیں کیوں اب تک ہم نے اپنی طاقت اور صلاحیت کا صرف چھوٹا سا حصہ ظاہر کیا ہے۔
یاد رہے کہ 14 ستمبر 2019 کو سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر حملے کیے گئے تھے جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ عبقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری یمن میں حکومت اور عرب عکسری اتحاد کے خلاف برسرپیکار حوثی باغیوں نے قبول کی تاہم امریکی صدر نے ٹوئٹس میں اشارہ دیا کہ امریکا جانتا ہے کہ یہ حملے کس نے کیے لیکن وہ سعودی عرب کے جواب کا انتظار کررہا ہے کہ وہ کسے ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اس کے بعد عرب عسکری اتحاد کے ترجمان کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے یمن سے نہیں کہیں اور سے ہوئے اور اس میں ایرانی ہتھیار استعمال ہوئے۔
ایک امریکی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے ایران سے ہوئے اور اس میں کروز میزائل استعمال کیے گئے۔
اس کے بعد 18 ستمبر کو سعودی عرب کی جانب سے تیل تنصیبات پر حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے شواہد پیش کیے گئے۔
سعودی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا کہ حملوں میں 18 ڈرونز اور 7 کروز میزائل جس سمت سے استعمال کیے گئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملے یمن سے نہیں ہوئے۔
کرنل ترکی المالکی نے بتایا کہ حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے ملنے کے جانچ سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ حملے شمال کی جانب سے کیے گئے اور بلاشبہ اسے ایران نے ‘اسپانسر’ کیا۔
21 ستمبر کو امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر مزید فوجی دستے اور سازو سامان بھیجنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکا نے ایران کے مرکزی بینک اور دو مالیاتی اداروں پر پابندیاں عائد کیں جنہیں واشنگٹن کی جانب سے تہران پر اب تک کی سب سے بڑی معاشی پابندیاں قرار دیا گیا۔
اس تمام تناظر میں ایران نے مؤقف اپنایا کہ اس کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ یمن میں عرب عسکری اتحاد کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔