dunya today

کیا سعودی بادشاہت کا خاتمہ قریب آ گیا؟


آصف شاہد


چودہ ستمبر کو سعودی عرب کے دو بڑے آئل فیلڈز پر حملے ہوئے۔ یمن کی حوثی ملیشیا نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی لیکن عجیب بات ہے کہ حملوں کی ذمہ داری لینے والوں کو جھوٹا کہا جا رہا ہے اور الزام کسی تیسرے فریق پر عائد کیا جا رہا ہے۔

الزام لگانے والے براہ راست نام بھی نہیں لیتے اور کہتے ہیں ایسا حملہ حوثی ملیشیا کے بس کی بات نہیں، کوئی اور ملوث ہے۔


بقیق اور خریص میں سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے چار دن بعد سعودی عرب شواہد سامنے لایا لیکن عرب اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی اپنی زبان پر ایران کا نام نہ لا سکے۔

دراصل ہوا یوں کہ سعودیوں نے جو بویا تھا اسے کاٹنے کا وقت آگیا۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملے عراق کے جنوبی علاقے سے کویتی فضائی حدود کو چیرتے ہوئے کئے گئے۔ ترکی المالکی نے اپنی پریس کانفرنس میں جو ویڈیوز پیش نہیں کیں وہ عرب دنیا میں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور تیل تنصیبات پر ہوئے حملوں اور ان کےذمہ داروں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔


سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کے لیے ایران نے عراق میں شیعہ ملیشیا گروپوں کے اتحاد الحشد الشعبی کو استعمال کیا اور ایران کی طرف سے یہ جوابی کارروائی تھی۔ اگست میں اسرائیل نے شام کے کرد علاقے سے جنوبی عراق میں ایران نواز الحشد الشعبی کو ڈرونز کجے ذریعے نشانہ بنایا۔

الحشد الشعبی کے اسلحہ ڈپو، اڈے اور گروپ کا ایک قافلہ ان ڈرون حملوں کی زد میں آیا۔ اس حملے میں اسرائیل کو سعودی مدد اور فنڈنگ حاصل تھی۔ اس ڈرون حملے پر عراق میں شور مچا اور وزیراعظم پر دباؤ پڑا کہ وہ اسرائیل کا نام لیں لیکن انہوں نے دباؤ برداشت کیا اور امریکیوں کو پیغام دیا کہ جنگ سے تباہ حال عراق اب کسی پراکسی وار کا متحمل نہیں۔ یہی پیغام سعودی عرب کو بھی دیا گیا، دونوں نے عراقی وزیراعظم کی بات پر کان نہ دھرے۔


ایران نے سعودی تیل تنصیبات پر حملے اسی عراقی گروپ سے کرائے اور دو پیغام دیئے۔ پہلا پیغام امریکا اور اتحادیوں کے لیے تھا کہ جب تک ایران کا محاصرہ ختم نہیں ہوتا خطے میں استحکام ممکن نہیں۔ دوسرا پیغام زیادہ سخت اور واضح تھا کہ ایران کسی بھی حملے کا جواب اس سے زیادہ شدت کے ساتھ دے گا اور یہ پیغام سعودی عرب تک پہنچ گیا ہے۔


جنوبی عراق سے اڑنے والے ڈرونز اور داغے گئے میزائل کویت کی فضا میں نہ صرف دیکھے گئے بلکہ کچھ لوگوں نے ویڈیوز بھی بنائیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور کویتی زیراعظم کے دفتر سے ردعمل بھی جاری کرنا پڑا۔ کویتی وزیراعظم نے ان نامعلوم پرواز کرتے کھلونوں کی تحقیقات کے ساتھ ملکی تنصیبات کی سکیورٹی سخت کرنے کا بھی حکم دیا۔


عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے اپنی سرزمین سے سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کی سختی سے تردید کی اور دھمکی دی کہ جو کوئی بھی عراقی سرزمین کو پراکسی وار کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا اس سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ عراقی وزیراعظم کی دھمکی دراصل امریکی وزیر خارجہ کے لیے پیغام تھا جو ان تک پہنچ گیا ہوگا۔


کئی ماہ پہلے امریکا نے عراقی وزیراعظم کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ وہ جنوبی عراق میں ایران نواز ملیشیا گروپوں پر بمباری کرنا چاہتا ہے۔عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکی وزیر خارجہ کو اس وقت بھی اس منصوبے سے دستبردار ہونے کے لیے کہا تھا۔ عراقی وزیراعظم کی طرف سے تجویز مسترد ہونے پر یہ کام اسرائیل کو سونپا گیا تھا۔ عراقی وزیراعظم نے اسرائیل کے ڈرون حملے کے بعد تل ابیب کا نام نہیں لیا تھا اب سعودی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد بھی وہ تردید کر رہے ہیں اور امریکی انہیں مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ایران نواز ملیشیا کا نام لیں اور یہ کہیں کہ حملے جنوبی عراق سے کئے گئے کیونکہ عراقی وزیراعظم کا استدلال یہ ہے کہ ہزاروں امریکی فوجی عراق میں موجود ہیں اس کے باوجود امریکی اتحادی اسرائیل عراق کی سرزمین پر ڈرون حملے کر رہا ہے کیا یہ بات عوام کے سامنے رکھی جا سکتی ہے۔ کیا امریکا برسوں سے تباہی کے شکار عراق کو جنگ میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔


پہلی خلیجی جنگ اور دوسری عراق جنگ میں بھی سعودی تیل تنصیبات پر اس طرح کا کوئی حملہ نہیں ہوا تھا کہ اسے نصف پیداوار روکنا پڑتی۔حالات اب یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایران نے شام، عراق، یمن، لبنان سمیت مشرق وسطیٰ میں پراکسی وار کے لیے اتحادی بنا لئے ہیں جبکہ سعودی عرب نے ولی عہد محمد بن سلمان کی حکومت میں تمام اتحادی گنوا دیئے ہیں اور وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ایران نے پراکسی جنگ کے لیے عرب زمین پر گروپوں کے علاوہ ترکی، روس اور قطر کی صورت میں اتحادی بھی بنائے ہیں جو اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔


سعودی عرب کے ولی عہد نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید کے اشاروں پر چل کر سعودی مملکت کوبے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر محمد بن سلمان بادشاہ بنے تو یہ سعودی خاندان کے آخری بادشاہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج جو حوثی سعودی عرب کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں انہیں ایران کا ساتھی خود سعودی پالیسیوں نے بنایا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے محمد بن زاید کے کہنے پر الاصلاح پارٹی کو یمن کا حکمران بننے سے روکنے کے لیے حوثیوں کو خود مدد دی اور الاصلاح سے لڑنے کے لیے تیار کیا۔ حوثی اس منصوبے کو سمجھ گئے اور الاصلاح کے ساتھ لڑنے کی بجائے سعودی نواز صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔


عرب امارات نے جب جنوبی یمن پر قبضہ مضبوط کرکے یمن کو دو حصوں میں بانٹ کر شمالی یمن کو حوثیوں کے حوالے کرنے کی ٹھانی تو محمد بن سلمان کو محمد بن زاید سے شکایت پیدا ہوئی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ عرب امارات نے بحر احمر کے دونوں طرف بندرگاہوں کا کنٹرول سنبھالا اور فوج نکالنے کا اعلان کرکے سعودیہ کو بے دست و پا اکیلا جنگ میں چھوڑ دیا۔عرب امارات کے اکسانے پر ہی سعودی عرب نے قطر کا مقاطعہ کیا اور خلیج تعاون کونسل کے بانی رکن قطر کو دشمن بنا یا۔ ترکی اور ایران نے بڑھ کر قطر کا ہاتھ تھاما اور خطے پر سعودی گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ اب سعودی عرب اپنے ہوم گراؤنڈ میں اکیلا پڑ گیا ہے ۔


سعودی عرب اکیلے لڑنے کی سکت نہیں رکھتا اور یہ بات ایران بھی جانتا ہے۔ اسی لیے یمن کے حوثی ملیشیا نے عرب امارات کے شیشے کے بنے ٹاورز اور اہم تنصیبات کو کسی بھی لمحے نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ عرب امارات یمن سے نکل جائے۔ عرب امارات کے شیخ پہلے ہی ایران کے میزائلوں سے خوفزدہ ہیں اور سعودی بلا اپنے سر لینے کو کبھی تیار نہیں ہوں گے۔یمن کے علاوہ اردن اور عمان بھی سعودی عرب کے دوست نہیں رہے۔
سعودی تیل تنصیبات اور اس سے پہلے تیل ٹینکروں پر حملوں سے سعودی تیل سپلائی لائن ناقابل اعتماد ہو گئی ہے اور مستقبل میں روس اور ایران اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ چین نے ایران کے تیل کے شعبے میں چار سو ارب ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ کر لیا ہے۔چین ایران کے تیل، گیس اور پیٹروکیمیکل سکیٹرز میں دو سو اسی ارب ڈالر سرمایہ کاری کرے گا۔

ایران کے ٹرانسپورٹ اور مینوفیکچرنگ انفراسٹرکچر میں ایک سو بیس ارب ڈالر لگائے گا۔ یہ معاہدہ دو ہزار سولہ میں ہوا تھا لیکن رک گیا تھا جس پر دوبارہ سے اتفاق کر لیا گیا ہے۔ اس سرمایہ کاری کے بعد امریکا اور سعودی عرب کی طرف سے ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی اپنی موت آپ مرتی دکھائی دیتی ہے۔


چین وسطی ایشیا اور یورپ کے کئی ملکوں کے ساتھ یوآن میں تجارت کر رہا ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ بھی یوآن میں کیا گیا ہے۔ اس طرح چین امریکی ڈالر کو بائی پاس کرکے امریکی پابندیوں کی زد میں آئے بغیر ایران کے ساتھ کاروبار کرے گا۔ ایران بھی چین کے ساتھ اس کی کرنسی میں تجارت کرنے والے ملکوں کو تیل فروخت کرکے ملکی معیشت کو زندہ رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔


ایران کے وزیر خارجہ کسی بھی کارروائی کی صورت میں مکمل جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن امریکا اب تک سعودی عرب کے فیصلے کا انتظار کرنے کے بیانات دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع اور ولی عہد کے چھوٹے بھائی امریکی حکام کو پیغام دے چکے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے۔ سعودی عرب کو ڈر ہے کہ کوئی بھی فوجی کارروائی اس کی تیل تنصیبات کو مزید غیرمحفوظ بنا دے گی۔ امریکی صدر بھی جنگ کے حق میں نہیں بلکہ دو ہزار سولہ کی طرح دوسری مدت کے الیکشن میں بھی ان کا نعرہ ہے،امریکا سب سے پہلے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا عراق اور افغان جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور کسی نئی جنگ میں الجھنے کو تیار نہیں۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں تیل کو ہتھیار بنا دیا ہے۔ ایران کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں تیل تنصیبات اور بحری راستوں پر تیل ٹینکروں کو نشانہ بنائے گا جو امریکا سمیت کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔


آصف شاہد دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: