جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگوانے کیلئے ایک مشترکہ دوست نے اُس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا تھا۔
اس مشترکہ دوست نے یہ تک پیشکش کی تھی کہ ریٹائرڈ جسٹس تقرر سے پہلے ہی اپنا دستخط شدہ استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کرنے کیلئے تیار ہیں تاکہ وہ اپنے قابل بھروسہ ہونے کو ثابت کر سکیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے مشترکہ دوست سے کہا تھا کہ انہیں مذکورہ استعفے کی ضرورت نہیں ہے اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کے تقرر کے حق میں فیصلہ کیا۔
تاہم، یہ معلوم نہیں کہ مشترکہ دوست جاوید اقبال کے تقرر کیلئے خود ہی اصرار کر رہے تھے یا انہیں ریٹائرڈ جج نے ایسا کرنے کیلئے کہا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے ہمدردوں نے پہلے ہی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے رابطہ کیا تھا تاکہ انہیں چیئرمین نیب لگوانے کیلئے حمایت حاصل کی جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو نیب کا سربراہ لگانے کے حامی نہیں تھے لیکن ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ آصف زرداری نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی حمایت کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھی اس وقت کے وزیراعظم شاہد عباسی سے بات کی تھی اور شائستگی سے جاوید اقبال کا نام پیش کرتے ہوئے ان کے نام پر غور کرنے کیلئے کہا تھا۔
جو لوگ جاوید اقبال کے چیئرمین نیب تقرر کیلئے حمایت جمع کر رہے تھے ان میں ریئل اسٹیٹ کے شعبے کی ایک بڑی شخصیت بھی شامل ہے۔
جمعرات کو شاہد خاقان عباسی نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا کے ساتھ غیر رسمی بات چیت میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگانے پر قوم سے معذرت کی۔ انہوں نے بتایا کہ چیئرمین نیب کا نام پیپلز پارٹی سے آیا تھا اور تقرر اتفاق رائے سے کیا گیا تھا۔
عباسی نے کہا کہ نیب کے قیام کا بنیادی مقصد مسلم لیگ نون کو تقسیم کرنا ہے۔ عباسی فی الوقت ایل این جی ٹرمینل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کی حراست میں ہیں۔
شاہد عباسی کی جانب سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگانے پر معذرت کا اظہار، چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بیان کے 24 گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا تھا کہ یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل غیر متوازن اور سیاسی انجینئرنگ کا حصہ ہے۔
نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا یہ اصرار رہا ہے کہ بیورو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنانے پر یقین نہیں رکھتا اور بلا امتیاز احتساب کا عمل جاری ہے۔