رتھ فائو کا 90واں یومِ پیدائش، گوگل کاخراج عقیدت

رتھ فائو کا 90واں یومِ پیدائش، گوگل کاخراج عقیدت

پاکستان میں جذام کے مریضوں کی مسیحا ڈاکٹر رتھ فاؤ کا آج 90واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے، رتھ فاؤ کے چاہنے والوں کی جانب سے جہاں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے وہیں گوگل نے بھی ڈاکٹر رتھ فاؤ کو  اُن کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر رُتھ فاؤ اپنی زندگی کے 56 برس پاکستانیوں کی خدمت میں مصروفِ عمل رہیں، انہیں پاکستان کی’مدر ٹریسا‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ 9 ستمبر 1929 میں جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں اور 1961 میں پاکستان آگئی تھیں، انہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج میں وقف کی۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ ایک جرمن ڈاکٹر اور سرجن ہونے کے ساتھ ہی ’سوسائٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری‘ نامی ایک تنظیم کی رکن بھی تھیں۔

رتھ فائو کا 90واں یومِ پیدائش، گوگل کاخراج عقیدت

ڈاکٹر رتھ فاؤ  نے اپنی تعلیم کا آغاز مغربی جرمنی میں آکر کیا اور پھر 1949 میں ’مینز‘ سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔

اُن کی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی کو انسانی خدمات کے لیے وقف کریں، اُن کی یہ ہی خواہش اُن کو ایک مشنری تنظیم ’دختر ان قلب مریم‘ تک لے آئی۔

1958 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مرض پر مبنی ایک فلم دیکھی، جس میں کوڑھ اچھوت کے مرض میں مبتلا مریض کو دِکھایا گیا تھا۔

اُس فلم میں دِکھایا گیا کہ کس طرح سے کوڑھ کے مریض کے جسم میں پس پڑھ جاتی ہے جس کے بعد اُس کا جسم گلنا شروع ہوجاتا ہے اور مریض کے جسم سے شدید بدبو بھی آتی ہے۔

1960ء تک پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو لاعلاج سمجھا جاتا تھا، اِسی دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان بھیجا اور جب وہ پاکستان آئیں تو جذام کے مریضوں کی حالت دیکھ کر اُنہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

یہاں سے جذام کے مریضوں کی مسیحا ڈاکٹر رتھ فاؤ کے سفر کا آغاز ہوا، اُنہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے قریب میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں ایک چھوٹے سے فری کلینک کا آغاز کیا جس کا نام ’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر‘ تھا، یہ شفاخانہ جذام مریضوں کے ساتھ ہی اُن کے لواحقین کی مالی مدد بھی کرتا تھا اور مریضوں کی بڑی تعداد نے اِس شفاخانے کا رُخ کیا۔

مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1963 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے ایک باقاعدہ شفاخانہ خریدا اور اُن کے پاس پورے پاکستان کے ساتھ ہی افغانستان سے بھی جذام کے مریض علاج کروانے آتے تھے، اِس کے بعد اُنہوں نے کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے اور پور ے مُلک میں بھی طبی عملے کی تربیت د ی۔

جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے اُنہوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ جرمنی سے بھی عطیات جمع کیے اور راولپنڈی کے بھی کئی اسپتالوں میں اس مرض کے علاج کے لیے’ لیپروسی ٹریٹمنٹ سینٹر‘ قائم کیے اور نیشنل لیپروسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ، ڈاکٹر آئی کے گل اور اُن کی ساتھی سسٹر بیرنس کی کاوشوں کے سبب پاکستان سے اِس لاعلاج مرض کا خاتمہ مُمکن ہوا اور 1996 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو اُن اولین مُمالک کی فہرست میں شامل کردیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی سے قابو پایا گیا۔

حکومتِ پاکستان نے 1988ء میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت دی۔ ان کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا، جن میں نشانِ قائد اعظم، ہلالِ پاکستان، ہلالِ امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔

لاکھوں مریضوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔

x

Check Also

خاتون سے جنسی ہراسگی، محکمہ صحت کے 2 افسران کو سزا

صوبائی محتسب سندھ نے خاتون کو جنسی ہراساں کرنے پر محکمہ صحت کے 2 افسران ...

%d bloggers like this: