چودہ سال بعد پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ یہ سوال کسی اور نے نہیں بلکہ خود اسرائیلی اخبار دی ہاریتز نے اٹھایا ہے۔
چند روز پہلے دنیا میڈیا گروپ کے پریذیڈنٹ کامران خان نے اپنے ٹویٹ سے سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دبا۔
انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ ہم اسرائیلی ریاست کے ساتھ براہ راست یا خفیہ بات چیت جے فوائد ھور نقصانات پر کھل کر بات کیوں نہیں کرسکتے۔
ان کی پوسٹ پر ہزاروں تبصرے ہوئے اور حیران کن بات یہ تھی کہ یہ سب مخالفت میں نہیں تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک وقت میں اسرائیل کے ساتھ تعلق کو ناممکن اور انتہائی ناپسندیدہ سمجھے جانے والا خیال اب تبدیل ہو رہا ہے اور نفرت کی شدت بھی تبدیل ہو رہی ہے۔
یہ موضوع ٹویٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا اور کچھ لوگ یہ سوال بھی کرنے لگے کہ کیا عمران خان کی حکومت خود اس موضوع پر بحث کرانا چاہتی ہے۔ کیا کسی بھی فیصلے سے پہلے عوامی ردعمل جانچا جا رہا ہے۔
اسی سال فروری میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اسرائیلی اخبار ماریب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں ہاریٹز کےایڈیٹر ایوی شیرف کے ٹویٹ نے ہنگامہ مچا دیا تھا جن کا دعویٰ تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو خفیہ طور پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔
اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے فروری میں دورہ پاکستان کے بعد اسلام آباد سعودی عرب سے تعلقات بحال کر رہا ہے اور امریکہ مالی امداد کے ذریعے پاکستان کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے کام کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ امریکی شرائط میں اسرائیل سے تعلقات کی طرف باقاعدہ پیش رفت بھی شامل ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر پاکستان میں یقینی طور پر شدید ترین ردعمل آئے گا کیونکہ ملک میںتصور کیا جاتا ہے کہ پاکستان قائم ہی یہودی ریاست کو ختم کرنے کیلیے ہوا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے بھی اسرائیل کے خلاف جذبات کو بڑھایا ہے کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مودی کی ڈوریھں بھی اسرائیل سے ہلائی جاتی ہیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شدید مخالفت کے باوجود اسرائیل اور پاکستان میں بہت سے چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں ممالک مذہبی تحریکوں کے نتیجے میں وجود میں آئے لیکن ان تحریکوں کی قیادت سیکولر لوگ کر رہے تھے۔ عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد برطانوی علاقوں میں نقشے پر ابھرنے والے ان ممالک کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔ ان دونوں ممالک کو اپنی بقا کے لیے امریکہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی ملک مذہب کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا۔
پاکستان اپنے قیام سے ہی اسرائیل کا مخالف رہا ہے۔ اکتوبر 1947 میں ’جب پاکستان کے قیام کو صرف دو ماہ ہوئے تھے، پاکستانی وزیرخارجہ ظفر اللہ خان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سیشن میں اسرائیل کی کڑی مخالفت کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے اندر صیہونی ریاست مصنوعی ہجرت کا نتیجہ ہے۔
اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گریون نے قائداعظم محمد علی جناح کو ٹیلی گرام پیغام بھیج کر سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن بانی پاکستان نے کبھی اس کا جواب نہیں دیا۔
1971ء میں جب پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور بنگلہ دیش بنا تب بھی پاکستان ایئر فورس عرب اسرائیل جنگ میں اپنے برادر اسلامی ممالک کے تحفظ کے لیے مشرق وسطیٰ میں صیہونی ریاست سے جنگ لڑ رہی تھی۔ انیس سو سڑسٹھ سے انیس سو اکہتر تک کی اس جنگ میں پاکستانی فائٹر پائلٹس نے بھرپور حصہ لیا تھا۔
اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی طرف حیران کن طور پر سب سے بڑا قدم ضیا الحق نے اٹھایا جنہوں نے مارچ 1986 میں پی ایل او کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا تھا۔
1982ء میں بیروت پر اسرائیلی قبضے کے دوران جب پورے پاکستان سے نوجوان پی ایل او کا حصہ بن کر اسرائیل کے خلاف لڑنے جا رہے تھے، اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد، امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں روس کے خلاف برسرپیکار تھے۔
نوے کی دہائی میں ’’اوسلو معاہدے‘‘ کے بعد پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سوالات اٹھنے لگے۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلسطین کاز کی حمایت کے لیے بھی اسرائیل کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلقات ہونے چاہیں۔
اس کا بڑا ثبوت اگست 1994ء میں سامنے آیا جب اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو فلسطین کا دورہ نہیں کرسکیں کیونکہ اس کے لیے اسرائیل کے ساتھ رابطہ ضروری تھا۔
اسرائیل شجر ممنوعہ ہونے کے باوجود پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کئی خفیہ رابطے ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی صدر ایزر ویزمین نے 1988ء میں انقرہ میں پاکستان ہم منصب رفیق تارڑ اور 1994ء میں جوہانسبرگ میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی۔
ستمبر دو ہزار پانچ میں پاکستان اور اسرائیل کی پہلی باضابطہ اور اعلانیہ ملاقات ہوئی، جس میں استنبول میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کو اسرائیلی ہم منصب سیلون شیلوم سے مصافحہ کرتے دیکھا گیا۔
پاکستان اور اسرائیل کے بننے کے پانچ دہائیوں بعد ہونے والی اس ملاقات کی تصاویر منظرعام پر آئیں تو فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اس کو خوش آئند قرار دیا۔
اس وقت کے صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہمیشہ سے اسرائیل سے تعلقات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ 2003ء میں پیرس میں اسرائیل سے تعلقات پر بحث کا بھی آغاز کرایا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں اسرائیلی سفارخانہ کھل گیا؟
2012ء میں ہاریتز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے قیام سے ہی فلسطین کا حامی ہے، لیکن ان کے خیال میں زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو 1948ء کے بعد وقت بہت بدل گیا ہے۔ پالیسیز کو وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے۔ اسرائیل کے ساتھ کئی مسلم ممالک کے تعلقات ہیں، کچھ سفارتی اور کچھ مسلم ممالک خفیہ طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو بھی حقائق کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے بارے میں سفارتی پوزیشن لینی چاہیے۔
اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ پندرہ برس کے دوران اسرائیل اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور ہتھیاروں کی خریدو فروخت پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔
گزشتہ بارہ ماہ کے دوران اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث زور پکڑ رہی ہے۔ کامران خان اور عاصمہ شیرازی کی اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی حمایت کے بیانات کے بعد یہ بحث شدت پکڑ گئی ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پاکستان نے ٹھوس مؤقف اپنایا۔ لیکن خلیجی ممالک نے اس معاملے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، اسی سے ناراض پاکستانی اسرائیل سے تعلقات کی حمایت کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول اعزازات دیئے جانے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
فروری 2019ء میں جب بھارت پاکستان پر فضائی حملے کر رہا تھا تو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو مہمان خصوصی کی حیثیث سے بلایا گیا۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھی بالواسطہ طور پر اسرائیل سے تعلقات کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ مودی کو ایوارڈ دینے پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خلیجی ممالک کا فیصلہ ان کے قومی مفادات کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی تعلقات مذہبی جذبات سے بلند ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے بھی حال ہی میں ٹویٹ کیا کہ پاکستان میں کچھ طبقات ایران اور عربوں کے لیے زیادہ فکر مند رہتے ہیں۔ نریندر مودی کے ان ممالک سے تعلقات ان کے لیے سبق ہیں کہ کچھ بھی آپ کے قومی مفادات سے بلند نہیں۔ آپ کی سرحدیں مقدس ہیں (مسلم) امہ کی نہیں۔
پاکستان میں اب آوازیں اٹھنا (اگرچہ بہت کمزور) شروع ہوگئی ہیں کہ اگر فلسطین سمیت عرب ممالک مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے باوجود بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں تو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرسکتا؟۔ اگر خلیجی ممالک فلسطین میں مظالم کے باوجود اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہے تو پاکستان بائیکاٹ کا جھنڈا کیوں تھامے کھڑا ہے؟۔
بلاشبہ یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ مین سٹریم پاکستانی میڈیا میں یہ بحث وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ سے ملاقات اور سعودی عرب کے اسرائیل سے بڑھتے تعلقات کے بعد شروع ہوئی ہے۔
بے نظیر بھٹو سے پرویز مشرف تک ماضی میں تمام حکمران اس مؤقف پر قائم رہے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات کا کوئی بھی قدم عرب ممالک کے ساتھ مشاورت کے ساتھ اٹھائے گا جبکہ اسرائیل کے ساتھ بیک ڈور تمام مذاکرات میں امریکی اثر نمایاں رہا ہے۔
اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیث ختم کرنے پر پاکستانی حکومت بھارت کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے، ایسے حالات میں اسرائیل کو تسلیم کرنا بھارتی مفادات کو نقصان پہنچانے اور اس کا اسرائیل میں اثر محدود کرنے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کامران خان کے الفاظ میں کہ اب وقت ہے کہ پاکستان جارحانہ خارجہ پالیسی اقدامات سے بھارت کے مذموم عزائم کا مقابلہ کرے۔
اخبار کے مطابق چونکہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں اس لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا آغاز کرنے پر اندرون ملک منفی ردعمل سے نمٹنا آسان ہے۔ البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کو اس فیصلے کی سیاسی قیمت چکانا پڑے گی کیونکہ عمران خان کی جمائمہ گولڈ سمتھ سے پہلی شادی کے بعد سے ان پر یہودی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کے پیش نظر یہ مشکل نظر آتا ہے کہ پاکستان میں اسرائیل مخالف احتجاج بڑے وقت کے لیے بڑے پیمانے پر جاری رہ سکے۔
سابق صدر پرویز مشرف کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں بیانات اقتدار کے ایوانوں میں گونجنے والی آوازوں کے عکاس ہیں، اسلام آباد کے موجودہ طاقتور طبقات بھی اسرائیل سے تعلقات کے حامی دکھائی دے رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی حمایت کرنے والی صحافیوں کو سنسرشپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اگرچہ اسرائیل سے تعلقات پر پیش رفت سعودی عرب کے ساتھ یہودی ریاست کے ساتھ باقاعدہ تعلقات کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ واشنگٹن اور ریاض کی ایران کا خطے میں اثر و رسوخ ختم کرنے کی حکمت عملی اور کوششوں سے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کو باقاعدہ ملاقات کے لیے پانچ دہائیوں انتظار نہیں کرنا ہوگا۔