میرے آقاؐ۔ میں شرمندہ ہوں...!

میرے آقاؐ۔ میں شرمندہ ہوں…!

تحریر: مظہر برلاس

زندگی ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافر چند لمحوں کے لئے کسی درخت کی چھائوں میں آرام کرلے۔ یہ بھی سچ ہے زندگی حق پر گزارنا چاہئے، حق کو معدوم ہوتا ہوا دیکھو تو زندگی قربان کر دینا چاہئے۔ تمام تر مصلحتوں کو ترک کرکے زندگی راہِ حق کی جھولی میں ڈال دینا چاہئے۔ خدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ زندگی خدائے لم یزل کے نام پر قربان کر دینا چاہئے۔ 

زندگی کا سچ یہی ہے کہ ظلم کا ساتھ نہیں دینا چاہئے، ظالم کے ہاتھوں کو روکنا چاہئے، ظلم اور جھوٹ کے قدموں کو پسپا کرنا چاہئے۔ زندگی کے سب لمحے بندگی میں گزار دینا چاہئیں اور بندگی یہی ہے کہ زندگی راۂِ حق پر قربان کر دینا چاہئے۔

انسانی تاریخ ظالموں کے ظلم سے بھری پڑی ہے۔ عہدِ رفتہ میں ظالم کبھی شداد کے روپ میں سامنے آیا، کبھی نمردو کی تصویر بن کر، کبھی فرعون کے لہجے میں، کبھی یزید کی منافقانہ سوچ بن کر اور کبھی ہلاکو کے روپ میں کھوپڑیوں کے مینار لگا کر۔ وقت بدلا تو ظلم کے انداز بھی بدل گئے۔ پہلے افراد ظالم تھے، اب ملک ظالم بن گئے۔ پہلے فرعون اور یزید افراد کا نام تھا، اب یہ فکر و عمل کا روپ ہے، اور یہ ملکوں کی سوچ ہے، پہلے تلواروں سے گردنیں اڑائی جاتی تھیں۔

اب انسانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے، پہلے خیمے جلائے جاتے تھے اب گھروں کو جلایا جاتا ہے، پہلے کشتیاں ڈبوئی جاتی تھیں، اب بستیاں جلائی جاتی ہیں، پہلے کنکر برسائے جاتے تھے، اب بم گرائے جاتے ہیں، کبھی تیر برسائے جاتے تھے، اب بارود کی بارش ہوتی ہے، پہلے برچھیاں اور نیزے تھے، اب بندوقوں کا راج ہے، کبھی جنگوں میں عورتوں، بچوں اور بزرگوں کا احترام ہوتا تھا، اب یہ تینوں ظلم کی چکی میں پستے ہیں مگر یہ سب کچھ بدلنے کے باوجود وقت کی رفتار کچھ بھی بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ 

پہلے ایک وار کرکے سرتن سے جدا کیا جاتا تھا، اب ایک ایک کرکے انسانی اعضا کاٹے جاتے ہیں، پہلے سینے میں تیر اترتا تھا، اب سینہ چاک کیا جاتا ہے، پہلے قتل کے فتوے لئے جاتے تھے، اب عالمی اداروں سے سرٹیفکیٹ لئے جاتے ہیں، اب ظالموں کو امن کے انعام دیئے جاتے ہیں، یہ چلن پرانا ہے، خراج پہلے بھی دیا جاتا تھا اب بھی دیا جاتا ہے، اشرفیوں کا چکر پہلے بھی تھا، دولت و زر کا چکر اب بھی ہے۔

ظلم کی تازہ تصویر کشمیر ہے، ظالم کا منحوس چہرہ وہاں بپھرے ہوئے سانپ کی طرح گردش کر رہا ہے، زندگی پہ موت کا پہرہ ہے، ہر گلی میں موت پھرتی ہے، ہر طرف سے گھیرائو جاری ہے، یہ قیامت کی گھڑی کیسی ہے، پوری وادی میں ظلم جاری ہے، دور تلک لہو بکھرا ہے، یہ مناظر نہیں دیکھے جاتے۔ لوگ وڈیو کلپس بھیج دیتے ہیں، انہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ سسک رہی ہے زندگی کشمیر میں۔ یہ بھی سچ ہے کہ آخری فتح حق کی ہوتی ہے کہ؎

صدیاں حسینؓ کی ہیں، زمانہ حسینؓ کا

میرے آقاؐ میں شرمندہ ہوں کہ میری زندگی کے لمحات نے بوسنیا میں بربریت دیکھی، شام میں قتل عام دیکھا، عراق پر بم برستے دیکھے، افغانستان میں بارود کی بارش دیکھی، لیبیا میں بستیوں کی بربادی دیکھی، اہلِ یمن پر زندگی کے دروازے بند ہوتے ہوئے دیکھے، فلسطین میں بلکتے ہوئے بچے دیکھے، مائوں کو بے بس دیکھا، جوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا، میانمار میں درندگی دیکھی، ایران کا گھیرائو دیکھا اور اپنے پیارے پاکستان کو ٹارگٹ بنتے ہوئے دیکھا، عالمی اداروں کی ناانصافیاں دیکھیں۔

اب کشمیر میں بلائوں کی طرح گلیوں میں پھرتی موت دیکھتا ہوں، روتی ہوئی ہوائیں دیکھتا ہوں، سبز ہلالی پرچموں میں لپٹی ہوئی لاشیں دیکھتا ہوں، اس پورے ماحول میں جوان جذبے بھی دیکھتا ہوں۔ 

میں شرمندہ ضرور ہوں مگر مجھے اطمینان ہے کہ میں روزِ حشر آپؐ کے سامنے شرمندہ نہیں ہوں گا کیونکہ میں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا، ہمیشہ مظلوم کی ترجمانی کی، میرے پاس بولنے کے لئے لفظ تھے جو میں نے حق کی خاطر بول دیئے، میرے پاس لکھنے کو لفظ تھے، میں نے وہ بھی لکھ ڈالے، میرے پاس حکومت نہیں، میرے پاس طاقت نہیں، کسی ریاست کی سربراہی نہیں، میں تیموری النسل ضرور ہوں مگر مجھے سرحدوں نے بانٹ رکھا ہے، میرے راستوں کو پاسپورٹ اور ویزے نے روک رکھا ہے، میں تلوار نہیں چلا رہا، میرے پاس بندوق نہیں ہے، میں ظلم کے خلاف بولتا ہوں، لکھتا ہوں، آپؐ نے جس جس سے محبت کا کہا، اس سے محبت کرتا ہوں۔

میں نے آپؐ کے پیاروں سے بغض رکھنے والوں کو ہمیشہ ناپسند کیا، میں نے آپؐ کے پیاروں سے پیار کیا، میں نے شہدائے کربلاؓ کی یادوں کو تازہ کیا، مجھے میرے مرشد کا سبق ہمیشہ یاد رہا کہ ’’دنیا میں ایک ہی گھرانا ہے، محمدؐ کا گھرانا، اہلِ بیتؓ کا گھرانا اور آخرت میں بھی یہی ایک گھرانا ہے‘‘ مگر میرے آقاؐ! یہ لوگ کون سا ’’چہرہ‘‘ آپؐ کے سامنے کریں گے جن کے پاس اسلامی ملکوں کی سربراہیاں ہیں، جنہیں آپؐ کا یہ فرمان یاد نہیں کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں‘‘ جو ان لوگوں سے دوستیاں کرتے ہیں جن سے قرآن نے منع کر رکھا ہے، جو آپؐ کے ان پیاروں سے بغض رکھتے ہیں جن سے محبت کی دعائیں آپؐ نے کیں، جن سے خدا بھی محبت رکھتا ہے۔ 

میرے آقاؐ! یہ لوگ آپ کو کیا جواب دیں گے جن کا ’’چہرہ‘‘ حال ہی میں بے نقاب ہوا ہے، ان لوگوں نے یزیدِ وقت یاد کروا دیا ہے۔ میرے آقاؐ! آپ کے یہ امتی کیا جواب دیں گے جنہوں نے شام، عراق اور افغانستان میں قتل عام کیا، جنہوں نے یمن پر زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی، جنہوں نے مسلم ممالک کا گھیرائو کیا، جو پاکستان کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے، جو فلسطین، بوسنیا، برما اور کشمیر پر چپ رہے۔

میرے آقاؐ! کیا آپ کے اُن امتیوں کو بھی شرمندگی کا کوئی احساس ہے؟ میرے آقاؐ! مال کی محبت میں گرفتار آپؐ کی اس امت نے چودہ سو برس پہلے آپؐ کے پیاروں کو شہید کر دیا تھا، افسوس، آپؐ کی امت کا چلن نہیں بدلا، ہم شرمندہ ہیں مگر آج بھی اقبالؒ کے اس شعر پر قائم ہیں کہ

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: