خوبصورتی کے نام پر بیماریاں نہ خریدیئے

رنگ گورا کرنے والی کریموں کے حوالے سے ایک خبر پنجاب سے آئی تھی کہ 59 کریمز میں سے 56 کریموں میں سیسہ (لیڈ) کی مقدار 1 فیصد سے زیادہ پائی گئی۔ یہ خبر موسمیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گل نے دی، اور یہ عندیہ بھی دیا کہ 31 دسمبر کے بعد ہر رنگ گورا کرنے والی کریم، جس میں سیسہ کی مقدار 1 فیصد سے زیادہ پائی گئی، ان کمپنیز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔ مزید یہ بھی کہا کہ محض دس روپوں میں جلدی بیماریاں نہ خریدیں۔

یہ بہت قابل تحسین کام ہے، جس کی اشد ضرورت بھی تھی۔ ایسی تمام کریمیں جس میں سیسہ ایک خاص حد سے زیادہ ہو، کینسر کا باعث ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں خوبصورتی کا معیار چونکہ گورا رنگ ہے، اس لیے آپ کو مارکیٹ میں بھی اس سے متعلقہ بہت سی کریمیں آسانی سے ہر جگہ ایسے ہی دستیاب ہیں، جیسے کہ آج کل کراچی میں بھنبھناتی مکھیاں۔ ظاہر ہے جس چیز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوگی، وہ زیادہ بکے گی، اس لیے وہ مارکیٹ میں بکثرت پائی بھی جائے گی۔

سیسہ ایک دھات ہے، جو کہ بہت نرم، اور رنگ سرمئی ہوتا ہے۔ تھرمامیٹر جو کہ بخار چیک کرنے کےلیے استعمال ہوتا ہے، اس میں سیسہ ہوتا ہے۔ اس کا صنعتوں میں بہت وسیع استعمال ہے، جیسے کہ پلمبنگ، بیٹریز، پینٹ وغیرہ میں۔ صنعتی انقلاب جو کہ 1760 کے لگ بھگ شروع ہوا، سیسہ کی صنعت کو بھی عروج ملا، اور خاص طور پر کاسمیٹکس انڈسٹری کو۔
کاسمیٹکس کی ہر پروڈکٹ میں سیسہ استعمال ہوتا ہے، فاؤنڈیشن، مسکارا، آئی لائنر، آئی شیڈوز، پرائمر، لپ اسٹک، لوشن، شیمپو، ہیئر اسپرے، نیل پالش، پرفیوم، کاجل، ہائی لائٹر، فیس پاؤڈر، کنسیلر، غرض کہ میک اپ کی ہر پروڈکٹ میں سیسہ شامل ہے۔ پلاسٹک کو پائیدار، اور لچکدار بنانے کےلیے بھی سیسہ استعمال ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی ہر بوتل جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں، سب میں سیسہ موجود ہے۔ اس لیے بچوں کو پلاسٹک کی بنی چیزوں سے خاص طور پر کھلونوں سے دور رکھیں، تا کہ وہ منہ میں نہ ڈالیں۔

انیسویں صدی میں سیسہ کے زہریلے ہونے کی تحقیق سامنے آئی۔ اب یہ نیوروٹاکسک مانا جاتا ہے، یعنی انسانی دماغ کو نقصان پہنچاسکتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی رویوں پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ یعنی جسم میں اگر اس کی مقدار زیادہ ہوجائے تو اس سے چڑچڑا پن، زیادہ غصہ کرنا، منفی خیالات کا آنا، وغیرہ جیسی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔

ہمارے ہاں اور کوئی شوق ہو یا نہ ہو، رنگ گورا کرنے کا شوق، جنون کی حد تک ضرور ہے، اور یہ صدیوں پرانا ہے۔ میں میٹرک تک پنجاب میں رہی، وہاں رنگ گورا کرنے کا جنون بہت دیکھا۔ کراچی میں تو پڑوس میں کیا چل رہا ہے نہیں پتہ ہوتا، لیکن گاؤں کے کسی کونے میں کچھ ہوجائے وہ سب کو پتہ ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں کوئی رنگ گورا کرنے والی تین کریموں کو مکس کرکے بنانے کا جنون امڈ آیا تھا گاؤں کی لڑکیوں میں۔ ایک لڑکی گاؤں کی جسے میں جانتی ہوں، اس کا رنگ بہت اچھا تھا، لیکن اسے مزید گورا ہونا تھا، اس لیے ان کریمز کا خوب استعمال کیا۔ کافی عرصہ استعمال کرنے کے بعد اسے ایکنی کا مسئلہ شروع ہوا، جو اسے پہلے نہیں تھا، اور یہ آج تک برقرار ہے۔ کئی ڈاکٹر سے علاج کروایا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے دونوں گالوں پر ختم نہ ہونے والے خطرناک پمپلز ہیں، اور پورے چہرے کی اسکن پوری طرح خراب ہوگئی۔

رنگ گورا کرنے والی کوئی بھی کریم ہو، شروع میں لگتا ہے کہ رنگ گورا ہوگیا، مگر ایسا ہے نہیں۔ جب ہم منہ دھوتے ہیں، صابن سے، یا فیس واش سے تو ہمیں ہمارا فیس گورا لگتا ہے۔ ایسا اس لیے لگتا ہے کہ ہمارے چہرے کی مردہ اسکن نکل جاتی ہے، اور فریش اسکن گوری لگتی ہے۔ رنگ گورا کرنے والی کریمز اس سے بہت زیادہ کرتی ہیں، وہ آپ کی اسکن کی بہت ساری تہوں کو ہٹا دیتی ہیں۔ کیونکہ اس میں ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو کہ اسکن کی بہت سی تہوں کو آسانی سے کراس کرجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسکن بہت زیادہ حساس ہوجاتی ہے۔ اس لیے سورج کی بالائے بنفشی شعائیں، زیادہ گرمی، چولہے کی تپش وغیرہ، ایسی اسکن کےلیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ سے اسکن کینسر کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔

ایسا ہی حال میک اپ کے زیادہ استعمال سے ہوتا ہے، کیونکہ میک اپ میں بھی سیسہ، اور بہت سے خطرناک کیمیکلز کی آمیزش ہوتی ہے، جس سے کینسر ہوسکتا ہے۔ میک اپ بہت ضروری ہے تو سستے والا بالکل بھی نہ خریدیں، جو پروڈکٹ بھی لینی ہے، اس کے اجزا لازمی چیک کریں، اور آج کل تو کمنٹس سے بھی آسانی سے اس پروڈکٹ کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

اس سب کی ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی وجہ گوری بہو لانے کا خبط بھی ہے، جس کے باعث لڑکیوں میں رنگ گورا کرنے کا جنون ہے۔ ہمیں اس ٹرینڈ کو اپنے معاشرے سے ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ گورا لڑکا کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا؟ کیونکہ اس کی تعلیم، اور اچھی نوکری دیکھی جاتی ہے، تو ظاہری شکل کو اگنور کردیا جاتا ہے۔ تو پھر میرا سوال ہے کہ اپنی بہنوں، بیٹیوں کو تعلیم کا زیور کیوں نہیں دیتے؟ لڑکیوں کو اچھی تعلیم دینے سے ہی ہم ان خرافات کا اپنے معاشرے سے خاتمہ کرسکتے ہیں۔

اللہ نے آپ کو جیسا بنایا ہے، اس پر راضی ہم تبھی ہوسکتے ہیں، جب ہم میں خوداعتمادی ہوگی، جو کہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی آسکتی ہے۔ قلم کی طاقت سے ہی آپ اپنی ہر جنگ جیت سکتے ہیں، اور رنگ گورا کرنے کی جنگ میں بیماریاں نہ خریدیئے۔

x

Check Also

خاتون سے جنسی ہراسگی، محکمہ صحت کے 2 افسران کو سزا

صوبائی محتسب سندھ نے خاتون کو جنسی ہراساں کرنے پر محکمہ صحت کے 2 افسران ...

%d bloggers like this: