فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور ان کے سیاسی حریفوں کے خلاف فیس بک اشتہارات کے ذریعے منفی پروپیگینڈا کرنے پر امریکی اخبار ’دی ایپوک ٹائمز‘ پر اپنے پلیٹ فارم کے ذریعے تشہیر پابندی عائد کردی۔
امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے انکشاف کیا کہ دی ایپوک ٹائمز نے ٹرمپ کی حمایت اور ان کے سیاسی حریفوں کے خلاف سازشی تھیوری کے لیے فیس بک اشتہارات کی مد میں 20 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔
این بی سی نیوز کے انکشاف پر فیس بک نے اشتہارات سے متعلق اپنی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے پر دی ایپوک ٹائمز پر مزید تشہیر کرنے پر پابندی لگادی۔
فیس بک کے ترجمان نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ گزشتہ چند برس کے دوران دی ایپوک ٹائمز کے متعدد فیس بک اکاؤنٹس غیرفعال کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ فیس بک کی اشتہارات کی پالیسی سے متضاد ہونے کی وجہ سے دی ایپوک ٹاٹمز کے اکاؤنٹس معطل کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نشریاتی ادارے کے انکشاف کے بعد بعض اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی گئی تاہم اب وہ ہمارے اشتہارات سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ دی ایپوک نے ’سچا اخبار‘ اور ’خالص امریکی صحافت‘ کے نام سے فیس بک پر اشتہارت چلائے تاکہ سوشل میڈیا کی سیاسی اشتہارات سے متعلق پالیسی کو بائے پاس کیا جاسکے۔
امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ کس طرح دی ایپوک ٹائمز نامی غیرمنافع بخش اخبار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور ان کے سیاسی حریفوں کے خلاف سازشی مواد چلا کر ایک بڑا آن لائن نیوز کا ادارہ بن کر ابھرا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دی ایپوک ٹائمز نے گزشتہ برس میں ٹرمپ کی حمایت میں 11 ہزار فیس بک اشتہارات پر 15 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ محض 2 برس میں دی ایپوک ٹائمز کے مالی اثاثے دگنا ہوگئے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکی صدر نے اپنے مخالفوں کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگینڈا مہم شروع کی ہو بلکہ ان پر اس طرح کے الزامات پہلے بھی لگ چکے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ امریکی انتخابات میں حیران کن طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد فیس بک پر یہ الزامات عائد کیے گئے تجے کہ اس نے بھی ’ہلیری کلنٹن‘ مخالف مہم چلائی تھی۔
ابتدائی طور پر فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ ویب سائٹ امریکی انتخابات پر اثر انداز ہو۔
تاہم بعد ازاں رواں برس اپریل میں فیس بک کے چیف سیکیورٹی آفیسر نے اپنی بلاگ پوسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ امریکی انتخابات کے دوران فیس بک جیسے پلیٹ فام کو پروپیگینڈا کے تحت استعمال کیا گیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فیس بک اگلے مرحلے میں امریکی انتخابات سے متعلق کیا اعتراف کرتا ہے اور امریکی انتظامیہ سوشل ویب سائٹ کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے گی۔
خیال رہے کہ نومبر 2016 میں ہونے والے امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے پر دنیا سمیت امریکی عوام بھی پریشان ہوگئے تھے کیونکہ ان کی جیت کے امکانات کم تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد متدد امریکی سیکیورٹی عہدیدار یہ کہ چکے ہیں کہ امریکی صدر کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی براہ راست مدد حاصل تھی۔
مذکورہ معاملے میں روس پر امریکی انتخابات کو ہیک کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے، جبکہ اس معاملے کی امریکی کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے بھی تحقیقات کی تھی۔