وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کو ٹیلی فون پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویش ناک صورت حال سے آگاہ کردیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر میری کوشش تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بات ہو اور سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد کی صورت حال سے آگاہ کروں، چنانچہ آج میری ان سے گفتگو ہوئی۔
انتونیو گوتریس کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اس وقت پیرس میں ہیں اور ان سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال ہوا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کیا کیونکہ جس طرح انہوں نے اپنے بیان میں قانونی اور سیاسی طور پر درست موقف پیش کیا تھا، اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ نہتے کشمیریوں کو بھی حوصلہ ملا ہوگا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوران گفتگو انتونیو گوتیرس کو بتایا کہ ‘سلامتی کونسل کا اجلاس بروقت تھا اور معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اسے طلب کیا گیا تھا، اس اجلاس کی بند کمرے میں ہونے والی گفتگو سے ہمیں یہ پیغام ملا کہ سب اراکین معاملے کا پرامن حل چاہتے ہیں’۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ہوئی گفتگو سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘ایک طرف ہم سے پرامن طریقے سے آگے بڑھنے کا تقاضہ کیا جارہا لیکن دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں 20 روز سے دن اور رات کرفیو نافذ ہے، یہی نہیں بلکہ گزشتہ روز نماز جمعہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جبکہ اس دوران جو لوگ گھروں سے باہر نکلے ان پر پیلٹ گنز کا حملہ، شیلنگ اور تشدد کیا گیا’۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے 3 فریق ہیں، جس میں سے 2 فریق 5 اگست کے اقدام پر اپنا واضح موقف پیش کرچکے ہیں، پاکستان مکمل طور پر اس اقدام کو مسترد کرچکا ہے اور اس قدم کو غیر آئینی، غیر قانونی، سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں سے متصادم اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی قرار دے چکا ہے جبکہ کشمیری بھی اس اقدام کو مسترد کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا فریق آج تقسیم ہے، جس کا عملی مظاہرہ آج سری نگر ایئرپورٹ پر دیکھا گیا۔
ٹیلیفونک گفتگو سے متعلق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ 20 روز سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کر رکھا ہے جبکہ ذرائع مواصلات پر پابندی ہے، بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اٹھائے گئے یک طرفہ اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہیں، مقبوضہ وادی سے متعلق بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی جان بچانے والی ادویات اور خوراک کی شدید قلت ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو مقبوضہ جموں و کشمری کے نہتے لوگوں کو بھارتی جبر سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ دوران گفتگو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ وہ اس تشویش ناک صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیری کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان سے قبل ہی ہزاروں کی تعداد میں اضافی بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں مرکزی چیک پوائنٹس پر بھیجے گئے تھے جبکہ یہ علاقہ پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا عسکری زون ہے، اس کے ساتھ ساتھ وادی کے 70 لاکھ لوگوں کے لیے ٹیلی فونک رابطے، موبائل فون، براڈبینڈ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی سروسز کو معطل کردیا تھا۔
‘بھارت اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں تو ہمارے ساتھ کہاں بیٹھے گا’
پریس کانفرنس کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی کانگریس کے رکن راہول گاندھی کو سری نگر ایئرپورٹ سے واپس بھیجنے کے معاملے پر بھی گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت فخریہ انداز میں خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا تھا لیکن آج دنیا نے دیکھا کہ اس ‘سب سے بڑی جمہوریت’ نے کس طرح فسطائیت کا مظاہرہ کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مودی سرکار کے فاشسٹ رویے کا عملی مظاہرہ آج لوگوں نے سری نگر ایئرپورٹ پر دیکھا، لوک سبھا کے رکن اور اپوزیشن جماعت کے ایک کلیدی رہنما راہول گاندھی کو 11 اپوزیشن ساتھیوں کے ساتھ جب دہلی سے سری نگر کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام بند ہے، قدغنیں ہیں، کوئی خبر باہر نہیں آنے دی جاتی لیکن میں ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے ذرائع سے فوٹیج بنا کر عزیز و اقارب کے ذریعے باہر منتقل کرتے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب راہول گاندھی سری نگر جانے اور کشمیری قیادت سے ملنے کی خواہش کرتے تو ایئرپورٹ پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا اور اگلے طیارے میں انہیں واپس دہلی منتقل کردیا جاتا ہے جبکہ ان کی جماعت کے ترجمان احتجاجاً پریس کانفرنس کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘میں دنیا میں جمہوری طاقت رکھنے والے ممالک سے مطالبہ کروں گا کہ وہ اس فوٹیج کو دیکھیں کہ کس طرح اپنے ہی لوگوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جارہا ہے’۔
دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ہمیں تاکید کی جاتی کہ بھارت کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ حل کیا جائے، ‘جب وہ اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں تو ہمارے ساتھ کہاں بیٹھیں گے’، آج بھارتی حکومت کے عزائم بالکل واضح ہوگئے، ان کے ارادے بالکل بے نقاب ہوگئے، بھارت آج تقسیم ہوچکا ہے، بہت بڑا طبقہ مودی سرکار کے فیصلوں کو مسترد کررہا ہے۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں اور وادی میں نافذ کرفیو کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کانگریس رہنما راہول گاندھی اور لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو قابض انتظامیہ نے سری نگر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا اور ایئرپورٹ سے ہی واپس نئی دہلی روانہ کردیا گیا تھا۔