امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی جانب سے مصنوعات کی درآمد پر 75 ارب ڈالر کا نیا ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے کے بعد امریکی کمپنیوں کو فوری طور پر بیجنگ سے واپسی کا حکم دے دیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چین کے ٹیرف کے حوالے سے تازہ فیصلے پر جواب دینے سے قبل اپنی تجارتی ٹیم سے ملاقات کی۔
ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہمارے ملک نے کئی برسوں سے چین کے ساتھ بے وقوفی میں کھربوں ڈالرز ضائع کردیے، انہوں نے ہماری جائیداد کو ایک سال میں سیکڑوں اربوں ڈالر کی قیمت میں چوری کیا اور وہ اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں چین کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے بغیر ہمارے لیے اچھا ہوگا، چین نے دہائیوں سے ہر سال بعد امریکا سے بڑی تعداد میں پیسے بنائے اور چوری کیے، جس کو روک دیا جائے گا’۔
امریکی کمپنیوں کو چین سے واپسی کا حکم دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری عظیم امریکی کمپنیوں کو فوری طور پر چین کا متبادل تلاش کریں، جبکہ اپنی کمپنیاں گھر واپس آکر امریکا میں مصنوعات تیار کریں’۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘میں چین کے ٹیرف پر جواب دوں گا، یہ امریکا کے لیے بھی عظیم موقع ہے، میں فیڈ ایکس، ایمازون، یو پی ایس اور پوسٹ آفس سمیت تمام ذیلی کمپنیوں کو بھی حکم دیتا ہوں کہ وہ تلاش شروع کریں اور چین سے فینٹنیل کی وصولی سے انکار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ اس کو روکنا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا، ہماری معیشت گزشتہ ڈیڑھ سے دو برس کے دوران منافع کے باعث چین کے مقابلے میں وسیع ہے اور ہم اس رفتار کو اسی طرح جاری رکھیں گے’۔
قبل ازیں چین نے ٹیرف کے حوالے سے ٹرمپ کے فیصلوں کا ردعمل دیتے ہوئے امریکی مصنوعات کی درآمد پر 75 ارب ڈالر کا نیا ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
چین کے اسٹیٹ کونسل ٹیرف آفس کا کہنا تھا کہ امریکا سے آنے والی 5 ہزار 78 اشیا پر یکم ستمبر اور 15 دسمبر سے 5 سے 10 فیصد ٹیرف عائد ہوگا۔
بیجنگ کی جانب سے امریکی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیرف اور آٹوپارٹس پر 5فیصد ٹیرف کا اطلاق 15 دسمبر سے ہوگا۔
چین کے اسٹیٹ کونسل ٹیرف کمیشن آفس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘امریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے سے امریکا اور چین کے درمیان معیشت اور تجارت میں پائے جانے والے اختلاف میں اضافہ ہوا ہے، جو دونوں ممالک کے سربراہان کی ارجنٹینا اور اوساکا میں ہونے والی اتفاق رائے کی خلاف ورزی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چین کی جانب سے ٹیرف کا نفاذ امریکا کے یکطرفہ اور تجارتی تحفظ کے دباؤ پر مجبوری کے تحت اٹھائے گئے اقدامات ہیں’۔
واضح رہے کہ امریکا نے 3 اگست کو چینی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ تجارتی جنگ میں چین کی مزید 300 ارب ڈالر کی مصنوعات پر 10 فیصد نیا ٹیرف نافذ ہوگا۔
دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے 22 اگست کو ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیرف لگانے سے تجارتی خسارے کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی شرح سود میں کمی سے امریکی ڈالر کمزور ہوگا۔
آئی ایم ایف کے چیف اقتصادیات کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک اپنی مقامی صنعت کو نقصان پہنچائیں گے‘۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘صارفین اور صنعت کاروں کے لیے قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کاروباری اعتماد، سرمایہ کاری اور عالمی سپلائی نظام بری طرح متاثر ہوگا‘۔