ماڈل، ٹی وی و فلم اسٹار مایا علی سے گفتگو

ماڈل، ٹی وی و فلم اسٹار مایا علی سے گفتگو

پا کستانی ٹی وی ڈراموںدیار دل ، من مائل ، درشہوار، ایک نئی سینڈریلا کی اداکارہ مایا علی نے کہا ہے کہ فنکارانہ صلاحیتیں ہی کسی بھی فنکار کو چھوٹا و بڑا بنا دیتی ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میری پہلی پاکستانی فلم ’’ طیفا ان ٹربل ‘‘ نے ملک اور بیرون ملک شاندار کامیابی سمیٹی ۔زارا کا کیریکٹر میری اصلی شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے

پا کستانی ٹی وی ڈراموںدیار دل ، من مائل ، درشہوار، ایک نئی سینڈریلا کی اداکارہ مایا علی نے کہا ہے کہ فنکارانہ صلاحیتیں ہی کسی بھی فنکار کو چھوٹا و بڑا بنا دیتی ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میری پہلی پاکستانی فلم ’’ طیفا ان ٹربل ‘‘ نے ملک اور بیرون ملک شاندار کامیابی سمیٹی ۔  زارا کا کیریکٹر میری اصلی شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے کئی ٹی وی ڈراموں کے سکرپٹ میرے پاس پڑے ہیں، جاندار ہوئے تو کام کروں گی سینئرز کا بہت احترام کرتی ہوں ، کل ہم بھی تو سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے لیجنڈ اداکار جاوید شیخ، بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و اداکار علی ظفر کے ساتھ کام کرنا اور فلم کی مقبولیت میرے لئے اعزاز رہا ۔ماڈل ، گلوکار ،اداکار اور فلمساز منور شہر یار کے ساتھ دوسری فلم میں سولو ہیرئوئین بن کر جلوہ گر ہونا میرے فنی کیریئر کی ایک اور کامیابی ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ کا کرم قرار دوں گی۔  میں ایک چھوٹی سی اداکارہ ہوں ، صف اول کی فنکارائو ں کے مستقبل کے لئے مجھے خطرہ قرار دینا میڈیا کا بڑا پن ہے ابھی طفل مکتب ہوں ، ملکی ٹی وی ڈراموں کی میری پرفارمنس کو دیگر ممالک کے چینلز پر پسند کیا جانا میرے لئے اعزاز ہے۔ اپنے کام سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنا چاہتی ہوں۔ ایک فنکارہ ہونے کے ناطے ثقافتی سفیر کے طور پر بھارتی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔فلم چاہئے کسی ملک کی ہو۔ کام کرنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ فنکار کے لئے سرحدیں نہیں ہوتیں۔صر ف دو گانوںاور پانچ سین کے لئے بھارتی فلم میں کام کرنے کی خواہش مند نہیں ہوں ، جاندار کردار اور عمدہ کہانی ہی میری ترجیح ہے ڈرامہ ہو یا فلم ایک فنکار تو صر ف اداکاری کرتا ہے ۔  دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات بالخصوص ثقافتی تعلقات کے ذریعے فنکار اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ڈرامے اور فلمیں ایک دوسرے کے ملک کی عوام کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے ہی بھارتی عوام میں پسند کئے گئے جس کی بناء پر ہماری شناحت ہوئی۔بالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی آفر ملکی فلم طیفا ان ٹربل سے قبل مل چکی تھی، دو برس قبل اکشے کمار کیساتھ بھارتی فلم میں کام کرنے کا معاہدہ تک ہوگیا تھا اور میں اسے سلسلے میں ممبئی بھی پہنچ چکی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرد تعلقات اور فنکار وں پر پابندی کے باعث اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیاتھا۔ اس فلم کو بعدازاں دوبئی میں مکمل کرنے کی آفر دی گئی لیکن میری نظر میں سب سے پہلے پاکستان ہے ۔  ا پنے ملک کی شناحت میرے لئے فخر کا باعث ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو متعارف کراتی ہے۔ اس سے قبل کئی سینئر فنکاروں نے بھی اس انڈسٹری میں جاکر اپنے فن کے ذریعے فنکارانہ صلاحیتوں کو منوایا ، ماہرہ خان، صبا قمر، ماورا حسین ، فواد خان، علی ظفر، عدنان صدیقی ، حمائمہ ملک دیگر موجودہ دور میں بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنی فنی صلاحیتوں سے ملک کا نام روشن کرچکے ہیں ان خیالات کا اظہار مقبول ڈرامہ سیریل ’’ درِشہوار‘ ‘سے فنی سفر شروع کرنے والی مایاعلی نے کیا۔  سیڑھی بہ سیڑھی چڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہیں۔ گوکہ ابتدائی ڈراموں میں اس اداکارہ نے کچھ ایسے کردار اداکیے جن سے اس کا گرل نیکسٹ ڈور امیج بن گیا تاہم پھر شناحت کے ذریعے کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ آیا اور پھر اس لڑکی نے اپنی ورسٹالٹی کچھ اس طرح شو کی کہ سبھی کو حیران کردیا، اگر یہ کہا جائے کہ مایا علی اس وقت پاکستانی ڈرامے کی ملکہ ہے تو غلط نہ ہو گاکہ اس کے کریڈٹ پر کئی خوب صورت پلیز ہیں جن میں میرا نام یوسف ہے، دیارِ د ل ،من ما ئل اور عون زار شامل ہیں ۔صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں ،یہ لڑکی کمرشلز اور قابلِ ذکرمیگزینز کے کورز پر بھی چھائی ہوئی ہے ،اس کے علاوہ ریمپ واک کے ذریعے بھی ماڈلنگ ورلڈ میں ایکٹو ہے سو کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقت ہے مایا کا جس کا فن خوب تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اس کے فنی فلمی کیریئر میں پہلی فلم طیفا ان ٹربل نے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر کے 25 ممالک میں ایک ساتھ نمائش کا نیا ریکارڈ بنایاتھا تو باکس آفس پر بھی نیا ریکارڈبنادیا تھاجس کا تصور شاید علی ظفر نے فلم بناتے ہوئے بھی نہیں کیا ہوگا۔علی ظفر کے بعد اب میرے فینز مجھے گلوکار و اداکار شہر یار منور کے ساتھ دیکھ کر بہت انجوائے کریں گے ۔   گزشتہ دنوں مایا علی سے اس حوالے سے ایک نشست ہوئی جس پر انکا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈرامے اپنی جگہ فلموں کارنگ اور اسکا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔   دنیا : کیریئر کے بارے میں بتائیں ؟  مایا : وی جے کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا ۔سچ تو یہ ہے کہ شوبز میں آنے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھااور نہ ہی یہ خیال تھا کہ وی جے بنوں گی ، یہ سب کچھ تو بس اچانک ہی ہوگیا،ایک جگہ انٹرن شپ کررہی تھی کہ مجھے ایک شو کو ہوسٹ کرنے کی آفر آگئی سو یہ سوچ کر اسے قبول کیا کہ اس سے میری سی وی میں وزن بڑھے گا پھر ماڈلنگ کی آفرز ملنے لگیں ، ایک دفعہ لان کے لیے شوٹ کروا رہی تھی ۔ وہاں ٹی وی ڈرامہ ہدایتکارحسیم حسین بھی موجود تھے جوکہ کسی ڈرامے کے لیے نئے چہروں کا آڈیشن لے رہے تھے ،میں نے بھی یونہی آڈیشن دے دیا اور توقع کے برخلاف دُرِشہوار‘ میں میری کاسٹنگ ہو گئی تب سے آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور میرا شوبز کیریئر یہاں تک آگیا۔من مائل ڈرامہ سیریل سے مجھے ایک نئی شناحت ملی جس میں میری پرفارمنس ناظرین کو بہت پسند آئی ۔  دنیا : کہا جارہا ہے کہ موجودہ فنکار سینئر فنکاروں کو اہمیت نہیں دیتے اور ان کا احترام نہیں کرتے ؟ اس بارے میں آپ کیاکہتی ہیں ؟  مایا : ذاتی طور پر میں اپنے سینئر کا بہت احترام کرتی ہوں ، ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، جو ایسا کرتے ہیں وہ درست نہیں کل ہم بھی سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے۔ اسٹائل ایوارڈ ز میں لیجنڈ فنکارہ شبنم کو ٹری بیوٹ ان پر فلمائے گئے گیت پر پرفارم کرکے پیش کیا ۔ جس کے لئے خصوصی وقت نکال کررقص کی ریہرسل کوریوگرافر نگاہ حسین کی نگرانی میں کی ۔ ہم آج اگر ہیں تو سینئر ز کی وجہ سے ہیں چاہے وہ ٹی وی ڈرامے ہو ںیا فلمیں ان کو زندہ رکھنے میں سینئر فنکاروں کا بڑا حصہ ہے۔  دنیا : فنی کیئر ئیر کی دوسری فلم پرے ہٹ لو کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی ؟   مایا : ہدایتکار عاصم رضا نے جب اس فلم کی آفر دی تو ذاتی طور پرخوشی ہوئی لیکن مجھ سے قبل اس فلم میں ماہرہ خان سائن ہو ئی تھیںجب پتہ چلا کہ وہ مصروفیات کی بناء پر اس فلم کو نہیں کررہی ہیں ، تو فلم کو سائن کیا میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ عاصم رضا کی ہدایات میں کام کیا ۔ فلم کے ہیرو شہر یار منور اور ہماری جوڑی شائقین کو پسند آئے گی۔میرے فلمی کیریئر کی دوسری فلم ’’پرے ہٹ لو ‘‘ میں میرا کردار ناظرین کو متاثر کرے گا۔شہر یار منور میرے ہیرو ہیں۔ ہدایتکار عاصم رضا نے بھی فلم پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا ہے ۔ پاکستان ،ترکی کی حسین لوکیشنز فلم شائقین کو متاثر کریں گی۔   دنیا :ٹی وی ڈراموں سے دور ہوگئی ہیں ؟  مایا : ایسا کچھ نہیں ؟ میں ایک وقت میں ایک کام کرنے کی عادی ہوں ، فلم پرے ہٹ لو میں مصروف ہونے کی بناء پر ٹی وی ڈرامہ کوئی سائن نہیں کیا۔اشتہاری فلموں اور ماڈلنگ کی آفرز ضرورت سے زیادہ ہوئیں تو اشتہاری دنیا میں مصروف ہوگئیں ۔ اس دوران فلم پرے ہٹ لو مل گئی تو ٹی وی سے دور ہوگئی ۔ اب بھی کئی ٹی وی ڈراموں کی آفر ز ہیں کئی اسکرپٹس بھی میرے پاس پڑے ہیں ان کو پڑھ کر جاندار کردار اور عمدہ اسکرپٹ کو ترجیح دوں گی ۔کئی فلموں کے اسکرپٹس بھی میرے پاس ا ٓئے ہوئے ہیں ان کو پڑھ کر ہی فلم سائن کروں گی ۔کم وقت میں اچھا کام کرنا میری ترجیحات میں شامل ہے۔   د نیا :کیا وجہ ہے کہ آپ ماڈلنگ میں زیادہ نظر نہیں آتیں؟   مایا :ماڈلنگ ایک گلیمرس فیلڈ ہے اور ذاتی طور پر بہت پسند ہے ،کئی بڑے برانڈز کے لیے ماڈلنگ کرچکی ہوں اور ریمپ پر واک کرنا اچھا لگتا ہے لیکن ایکٹنگ مصروفیات کی وجہ سے ماڈلنگ کے لیے ٹائم نہیں نکال پاتی البتہ جب بھی وقت ملتا ہے تو ماڈلنگ ضرور کرتی ہوں جیسا کہ حال ہی میں ماریہ بی کے ساتھ ایک کانٹریکٹ سائن کیا تھا جس کی برانڈایمبیسڈر رہی ۔اب تک کئی برانڈز کی ماڈلنگ کرچکی ہوں فلم کرنے کے بعد علی ظفر کے ساتھ کئی اشتہاری فلموں میں کام کرچکی ہوں ماڈلنگ میں ریمپ پر واک بھی کرچکی ہوںفیشن ویک ہو برائیڈل ویک فلم کی کامیابی نے نئے در کھول دیتے ہیں ۔   دنیا :کہا جاتا ہے کہ من مائل میں آپ کے کیریکٹر منو ، پرخوب تنقید ہوئی تھی اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟  مایا :سچی بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی آخر لوگ بے چاری لڑکی ٹائپ کیریکٹرز پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ویسے میں تو جو بھی رول کرتی ہوں،اس پر عموماً ایسے ہی منفی تاثرات سننے کو ملتے ہیں جیسا کہ ضد،میںایک بولڈ عورت کا رول کیا تو اس پربھی تنقید ہوئی ۔جہاں تک کیریکٹر منو‘ کا تعلق ہے تو وہ ایسی لڑکی ہے جو فیملی اور بچوں کی خاطر بہت کچھ پر سمجھوتہ کرتی ہے اور وہ بری صورتِ حال میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تاہم منو ایک پاورفل عورت کا کیریکٹر ہے اور آگے کی اقساط میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح وہ غلط چیزوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے‘ بہرحال ایسے کردار معاشرے میں موجود ہیں تبھی ہمارے ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں‘ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے‘ اپنی بات کروں اگر اداکارہ نہ ہوتی تو شادی رچاچکی ہوتی‘ شوبز جوائن کرنے پر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑامگر آج صورتِ حال مختلف ہے اور وہی لوگ جو کل حوصلہ شکنی کرتے تھے‘ آج سپورٹ کررہے ہیں    دنیا : آپ نے ثاقب ملک کی کوئی فلم سائن کی تھی مگر پھر مذکورہ پروجیکٹ آگے بڑھ نہیں پا پا، اس بارے میںکچھ بتانا پسند کریں گی؟   مایا :جی ہاں،اس حوالے سے بات چلی تھی اور بہت کچھ چیزیں فائنل ہوگئی تھیں مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوگیا‘ اس میں عثمان خالد بٹ بھی تھا مگر جب چیزیں تاخیر کا شکار ہوئیں تو اس نے بالوماہی‘ سائن کرلی اور میں چند سیریلز میں مصروف ہوگئی تاہم اس سلسلے میں بات چل رہی تھی لیکن معاملات آگے نہیں بڑھ پائے ہیں ا س کے بعد ان کی فلم سائن نہیں کی البتہ علی ظفر کی آفر ہاتھ میں آئی تو انکار نہیں کرسکی جوکہ رومینٹک مووی تھی اور اس کا کردار مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا تھا جس میں پرفارمنس مارجن بہت زیادہ تھا‘ یوں تو فلم کے حوالے سے بہت سے پروجیکٹس مجھے آفر ہوئے ہیں لیکن اپنی پسند کاکام کرنا چاہتی ہوںاور کوشش ہے کہ اچھے پروجیکٹس سائن کروں ۔اس برس ثاقب ملک نے فلم باجی بناکر نمائش کی اور کامیابی سمیٹی تو مسرت ہوئی ۔میرا اور آمنہ الیاس کا کام بہت زبردست رہا ۔اچھی فلمیں ہی سینماگھروں کو آباد کرسکتی ہیں۔   دنیا :عثمان خالدبٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ؟   مایا:شکر ہے آپ نے یہ سوال کیا تاکہ میں اس حوالے سے بہت کچھ کلیئر کرسکوں،عثمان سے میری ملاقات ایک نئی سنڈریلا‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی اور تبھی سے ہم دونوں دوست بن گئے وہ ایک زبردست کو۔اسٹار ہے اور چونکہ ہم دونوں ہی نئے تھے لہٰذا ہم نے ایک ساتھ سیکھنا شروع کردیااس طرح ہمارے درمیان ایک خاص دوستانہ تعلق بن گیا جس سے ہمارے کام پر مثبت اثر پڑا اسی کیمسٹری کا نتیجہ ہے کہ ہم بیسٹ آن اسکرین کپل کا ایوارڈ یافتہ ہیں۔ عثمان نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ۔اب میں نے شہریار منور کے ساتھ فلم کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی تعلق ہے۔ساتھی فنکار کے ساتھ ہم آہنگی فلم اور ڈرامہ کے کردار میں عمدہ پرفارمنس کی بناپر ہونا ضروری امر ہوتا ہے۔   دنیا :کیا یہ درست ہے کہ پڑوس میں بھی کوئی فلم کی آفر ہوئی تھی ؟  مایا : فنکار آزاد ہوتا ہے اس کے فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کام کی آفر کہیں سے بھی آئے اچھا کردار ہی فنکار کو قبول کرنے سے مجبور کرتا ہے ۔ بھارتی فلم میں آفر ہی نہیں ممبئی جاکر فائنل کرچکی تھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات نے فلم سے دور کردیا وہ لوگ دوبئی آکر فلم بنانا چاہتے تھے لیکن میرے لئے سب سے پہلے اپنا ملک پاکستان عزیز ہے ۔اب بھی آفرز ہیں ۔ فنکاروں کو سرحدوں کی قید سے آزاد رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے جب دو ممالک کے درمیان کرکٹ میچ ہوسکتے ہیں اور تجارت ہوسکتی ہے تو فنکار ایک دوسرے کی فلموں اور ڈراموں میں کام کیوں نہیں کرسکتے؟  دنیا :آفر کیسے ملی تھی ؟ اس بارے میں کچھ بتائیں ؟  مایا : میرا کھیل عون زارا‘ بھارتی چینل نے بھی دکھایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تب سے میرے پاس وہاں کی انڈسٹری سے آفرز آنے لگیں،اس سلسلے میں چند ایک اسکرپٹس بھی پڑھے تاہم کوئی مووی سائن نہیں کی ۔بطور پاکستانی مجھ پر خاص ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے کئی فنکار وہاں گئے ہیں لیکن زیادہ تر نے مایوس کیا ہے البتہ چند ایک اچھا کام کررہے ہیں جن میں ماہرہ خان اور فواد خان نمایاں ہیں ، صبا قمر او ر سجل علی نے بھی کمال کاکام کیا جس کی دھوم بالی ووڈ میں رہی بہرحال اگر اچھا موقع ملا اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات رہے تو مجھے بھی بالی ووڈ میں کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔  دنیا : اپنی ہم عصر اداکاراؤں میں کس سے متاثر ہیں؟    مایا :سب سے پہلے تو واضح کردوں کہ خود کو کبھی کسی سے بہتر نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ بطور ایکٹر اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بناؤں اور ایک ہی قسم کے کردار نہ کروں‘ پچھلے دنوں آن لائن ایک آرٹیکل پڑھا جس میں ٹاپ تھری ایکٹریسز میں میرا نام بھی تھا اور باقی دو ماہرہ خان اور صنم سعیدتھیں ‘ یہ پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا،بہرحال سبھی ٹیلنٹڈ ہیں جیسا کہ صنم سعید اور ما ہرہ اس کے علاوہ سجل علی بھی بہت زبردست اداکارہ ہیں اور اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ آمنہ شیخ بھی اچھی ہیں اور ان کے ساتھ اسکرین شیئر کرنا بہت اچھا لگا۔  دنیا:اب تک کا کیریئر سفر کیسا رہا ہے؟   مایا:ابتدا میں مجھے بے چاری یا گرل نیکسٹ ڈور ٹائپ کیریکٹرز ملتے رہے پھر شناخت ،میں ایک مختلف کیریکٹر ملا ، اس حوالے سے ہمیشہ مومنہ درید کی شکرگزار رہوں گی کہ جنہوں نے مجھ پر ہر بار اعتماد کیا ،شناخت ،کے بعداپنی ورسٹالٹی شو کرنے کا موقع ملااور میری ایکٹنگ اسکلز بھی پالش ہوئیں‘ اس کے بعد لوگوں نے مجھ پر اعتماد کرنا شروع کردیا اور یہی میرے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا پھر دیارِ دل ، میرا نام یوسف ہے ، جیسے پلے ز میرے حصے میں آئے جن میں کام کرکے بہت کچھ سیکھاسو یہی کہوں گی کہ میرا کیریئر بہت اچھا رہا ہے ‘ محنت اور قسمت کے ساتھ یہاں تک پہنچی ہوں ۔  دنیا :ٹی وی ڈرامہ کیریئر کے دور ان کون سا کیریکٹر شخصیت سے ریلیٹ کرتا ہے؟   مایا:اب تک جتنا کام کیاان سب سے لطف اندوز ہوتی رہی ہوں جب اس فیلڈ میں آئی تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا حتیٰ کہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سین کس طرح شوٹ ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ کام کرتے ہوئے سیکھتی چلی گئی ۔عون زارا،میں زارا کا کیریکٹر میری اصل شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ آخر ایسا کیوں ہے جس قسم کی مشکلات اور پریشانیاں منو جھیلتی ہے ،اسے ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں اور یہ سیریل دیکھتے ہوئے اکثر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔   دنیا:اس وقت ٹی وی اور فلم میں جس قسم کے موضوعات دکھائے جارہے ہیں ؟  مایا:اس حوالے سے کہا کہ ٹی وی ایک ایسا میڈیم ہے جو معاشرے کے لیے آئینے کا کردار ادا کرتا ہے اور اسی لیے ڈراموں کو حقیقت سے قریب تر ہونا چاہیے جبکہ فلم تفریح سے بھرپور ہوتی ہے جس میں خیالی دنیا بسائی جاتی ہے سو میں سمجھتی ہوں کہ ڈراموں میں ایسے سبجیکٹس کو پیش کیا جائے جس سے سوچ کے در کھلیں جبکہ فلمیں تفریح سے بھرپور ہونی چاہئیں،میں خود مسالہ فلموںکی شوقین ہوںسو ایسی فلمیں دیکھ کر لوگ ریلیکس ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ملا جلا کام ہورہا ہے اور ٹی وی پر کئی اچھے ڈرامے نظر آ رہے ہیں ۔  دنیا :شائقین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟    مایا : تمام شائقین سے محبت کرتی ہوں سو ان سے یہی کہنا ہے کہ ہم آپ کے لیے خوب محنت کرتے ہیں لہٰذا آپ کو بھی چاہیے کہ ہمارے کام کو پسندیدگی سے نوازیں۔پاکستانی فلموں کو سینما گھر جاکر دیکھنے کی عادت ڈالیں اب جدید سینما گھر بن چکے ہیں ۔ ملکی فلموں کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی فلم انڈسٹری کو استحکام دینے میں اپنا کردار ادا کریں

کئی ٹی وی ڈراموں کے سکرپٹ میرے پاس پڑے ہیں، جاندار ہوئے تو کام کروں گی سینئرز کا بہت احترام کرتی ہوں ، کل ہم بھی تو سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے

لیجنڈ اداکار جاوید شیخ، بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و اداکار علی ظفر کے ساتھ کام کرنا اور فلم کی مقبولیت میرے لئے اعزاز رہا ۔ماڈل ، گلوکار ،اداکار اور فلمساز منور شہر یار کے ساتھ دوسری فلم میں سولو ہیرئوئین بن کر جلوہ گر ہونا میرے فنی کیریئر کی ایک اور کامیابی ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ کا کرم قرار دوں گی۔

پا کستانی ٹی وی ڈراموںدیار دل ، من مائل ، درشہوار، ایک نئی سینڈریلا کی اداکارہ مایا علی نے کہا ہے کہ فنکارانہ صلاحیتیں ہی کسی بھی فنکار کو چھوٹا و بڑا بنا دیتی ہیں۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میری پہلی پاکستانی فلم ’’ طیفا ان ٹربل ‘‘ نے ملک اور بیرون ملک شاندار کامیابی سمیٹی ۔  زارا کا کیریکٹر میری اصلی شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے کئی ٹی وی ڈراموں کے سکرپٹ میرے پاس پڑے ہیں، جاندار ہوئے تو کام کروں گی سینئرز کا بہت احترام کرتی ہوں ، کل ہم بھی تو سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے لیجنڈ اداکار جاوید شیخ، بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و اداکار علی ظفر کے ساتھ کام کرنا اور فلم کی مقبولیت میرے لئے اعزاز رہا ۔ماڈل ، گلوکار ،اداکار اور فلمساز منور شہر یار کے ساتھ دوسری فلم میں سولو ہیرئوئین بن کر جلوہ گر ہونا میرے فنی کیریئر کی ایک اور کامیابی ہے جسے صرف اللہ تعالیٰ کا کرم قرار دوں گی۔  میں ایک چھوٹی سی اداکارہ ہوں ، صف اول کی فنکارائو ں کے مستقبل کے لئے مجھے خطرہ قرار دینا میڈیا کا بڑا پن ہے ابھی طفل مکتب ہوں ، ملکی ٹی وی ڈراموں کی میری پرفارمنس کو دیگر ممالک کے چینلز پر پسند کیا جانا میرے لئے اعزاز ہے۔ اپنے کام سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنا چاہتی ہوں۔ ایک فنکارہ ہونے کے ناطے ثقافتی سفیر کے طور پر بھارتی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔فلم چاہئے کسی ملک کی ہو۔ کام کرنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ فنکار کے لئے سرحدیں نہیں ہوتیں۔صر ف دو گانوںاور پانچ سین کے لئے بھارتی فلم میں کام کرنے کی خواہش مند نہیں ہوں ، جاندار کردار اور عمدہ کہانی ہی میری ترجیح ہے ڈرامہ ہو یا فلم ایک فنکار تو صر ف اداکاری کرتا ہے ۔  دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات بالخصوص ثقافتی تعلقات کے ذریعے فنکار اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ڈرامے اور فلمیں ایک دوسرے کے ملک کی عوام کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے ہی بھارتی عوام میں پسند کئے گئے جس کی بناء پر ہماری شناحت ہوئی۔بالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی آفر ملکی فلم طیفا ان ٹربل سے قبل مل چکی تھی، دو برس قبل اکشے کمار کیساتھ بھارتی فلم میں کام کرنے کا معاہدہ تک ہوگیا تھا اور میں اسے سلسلے میں ممبئی بھی پہنچ چکی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرد تعلقات اور فنکار وں پر پابندی کے باعث اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیاتھا۔ اس فلم کو بعدازاں دوبئی میں مکمل کرنے کی آفر دی گئی لیکن میری نظر میں سب سے پہلے پاکستان ہے ۔  ا پنے ملک کی شناحت میرے لئے فخر کا باعث ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو متعارف کراتی ہے۔ اس سے قبل کئی سینئر فنکاروں نے بھی اس انڈسٹری میں جاکر اپنے فن کے ذریعے فنکارانہ صلاحیتوں کو منوایا ، ماہرہ خان، صبا قمر، ماورا حسین ، فواد خان، علی ظفر، عدنان صدیقی ، حمائمہ ملک دیگر موجودہ دور میں بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنی فنی صلاحیتوں سے ملک کا نام روشن کرچکے ہیں ان خیالات کا اظہار مقبول ڈرامہ سیریل ’’ درِشہوار‘ ‘سے فنی سفر شروع کرنے والی مایاعلی نے کیا۔  سیڑھی بہ سیڑھی چڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہیں۔ گوکہ ابتدائی ڈراموں میں اس اداکارہ نے کچھ ایسے کردار اداکیے جن سے اس کا گرل نیکسٹ ڈور امیج بن گیا تاہم پھر شناحت کے ذریعے کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ آیا اور پھر اس لڑکی نے اپنی ورسٹالٹی کچھ اس طرح شو کی کہ سبھی کو حیران کردیا، اگر یہ کہا جائے کہ مایا علی اس وقت پاکستانی ڈرامے کی ملکہ ہے تو غلط نہ ہو گاکہ اس کے کریڈٹ پر کئی خوب صورت پلیز ہیں جن میں میرا نام یوسف ہے، دیارِ د ل ،من ما ئل اور عون زار شامل ہیں ۔صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں ،یہ لڑکی کمرشلز اور قابلِ ذکرمیگزینز کے کورز پر بھی چھائی ہوئی ہے ،اس کے علاوہ ریمپ واک کے ذریعے بھی ماڈلنگ ورلڈ میں ایکٹو ہے سو کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقت ہے مایا کا جس کا فن خوب تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اس کے فنی فلمی کیریئر میں پہلی فلم طیفا ان ٹربل نے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر کے 25 ممالک میں ایک ساتھ نمائش کا نیا ریکارڈ بنایاتھا تو باکس آفس پر بھی نیا ریکارڈبنادیا تھاجس کا تصور شاید علی ظفر نے فلم بناتے ہوئے بھی نہیں کیا ہوگا۔علی ظفر کے بعد اب میرے فینز مجھے گلوکار و اداکار شہر یار منور کے ساتھ دیکھ کر بہت انجوائے کریں گے ۔   گزشتہ دنوں مایا علی سے اس حوالے سے ایک نشست ہوئی جس پر انکا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈرامے اپنی جگہ فلموں کارنگ اور اسکا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔   دنیا : کیریئر کے بارے میں بتائیں ؟  مایا : وی جے کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا ۔سچ تو یہ ہے کہ شوبز میں آنے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھااور نہ ہی یہ خیال تھا کہ وی جے بنوں گی ، یہ سب کچھ تو بس اچانک ہی ہوگیا،ایک جگہ انٹرن شپ کررہی تھی کہ مجھے ایک شو کو ہوسٹ کرنے کی آفر آگئی سو یہ سوچ کر اسے قبول کیا کہ اس سے میری سی وی میں وزن بڑھے گا پھر ماڈلنگ کی آفرز ملنے لگیں ، ایک دفعہ لان کے لیے شوٹ کروا رہی تھی ۔ وہاں ٹی وی ڈرامہ ہدایتکارحسیم حسین بھی موجود تھے جوکہ کسی ڈرامے کے لیے نئے چہروں کا آڈیشن لے رہے تھے ،میں نے بھی یونہی آڈیشن دے دیا اور توقع کے برخلاف دُرِشہوار‘ میں میری کاسٹنگ ہو گئی تب سے آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور میرا شوبز کیریئر یہاں تک آگیا۔من مائل ڈرامہ سیریل سے مجھے ایک نئی شناحت ملی جس میں میری پرفارمنس ناظرین کو بہت پسند آئی ۔  دنیا : کہا جارہا ہے کہ موجودہ فنکار سینئر فنکاروں کو اہمیت نہیں دیتے اور ان کا احترام نہیں کرتے ؟ اس بارے میں آپ کیاکہتی ہیں ؟  مایا : ذاتی طور پر میں اپنے سینئر کا بہت احترام کرتی ہوں ، ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، جو ایسا کرتے ہیں وہ درست نہیں کل ہم بھی سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے۔ اسٹائل ایوارڈ ز میں لیجنڈ فنکارہ شبنم کو ٹری بیوٹ ان پر فلمائے گئے گیت پر پرفارم کرکے پیش کیا ۔ جس کے لئے خصوصی وقت نکال کررقص کی ریہرسل کوریوگرافر نگاہ حسین کی نگرانی میں کی ۔ ہم آج اگر ہیں تو سینئر ز کی وجہ سے ہیں چاہے وہ ٹی وی ڈرامے ہو ںیا فلمیں ان کو زندہ رکھنے میں سینئر فنکاروں کا بڑا حصہ ہے۔  دنیا : فنی کیئر ئیر کی دوسری فلم پرے ہٹ لو کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی ؟   مایا : ہدایتکار عاصم رضا نے جب اس فلم کی آفر دی تو ذاتی طور پرخوشی ہوئی لیکن مجھ سے قبل اس فلم میں ماہرہ خان سائن ہو ئی تھیںجب پتہ چلا کہ وہ مصروفیات کی بناء پر اس فلم کو نہیں کررہی ہیں ، تو فلم کو سائن کیا میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ عاصم رضا کی ہدایات میں کام کیا ۔ فلم کے ہیرو شہر یار منور اور ہماری جوڑی شائقین کو پسند آئے گی۔میرے فلمی کیریئر کی دوسری فلم ’’پرے ہٹ لو ‘‘ میں میرا کردار ناظرین کو متاثر کرے گا۔شہر یار منور میرے ہیرو ہیں۔ ہدایتکار عاصم رضا نے بھی فلم پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا ہے ۔ پاکستان ،ترکی کی حسین لوکیشنز فلم شائقین کو متاثر کریں گی۔   دنیا :ٹی وی ڈراموں سے دور ہوگئی ہیں ؟  مایا : ایسا کچھ نہیں ؟ میں ایک وقت میں ایک کام کرنے کی عادی ہوں ، فلم پرے ہٹ لو میں مصروف ہونے کی بناء پر ٹی وی ڈرامہ کوئی سائن نہیں کیا۔اشتہاری فلموں اور ماڈلنگ کی آفرز ضرورت سے زیادہ ہوئیں تو اشتہاری دنیا میں مصروف ہوگئیں ۔ اس دوران فلم پرے ہٹ لو مل گئی تو ٹی وی سے دور ہوگئی ۔ اب بھی کئی ٹی وی ڈراموں کی آفر ز ہیں کئی اسکرپٹس بھی میرے پاس پڑے ہیں ان کو پڑھ کر جاندار کردار اور عمدہ اسکرپٹ کو ترجیح دوں گی ۔کئی فلموں کے اسکرپٹس بھی میرے پاس ا ٓئے ہوئے ہیں ان کو پڑھ کر ہی فلم سائن کروں گی ۔کم وقت میں اچھا کام کرنا میری ترجیحات میں شامل ہے۔   د نیا :کیا وجہ ہے کہ آپ ماڈلنگ میں زیادہ نظر نہیں آتیں؟   مایا :ماڈلنگ ایک گلیمرس فیلڈ ہے اور ذاتی طور پر بہت پسند ہے ،کئی بڑے برانڈز کے لیے ماڈلنگ کرچکی ہوں اور ریمپ پر واک کرنا اچھا لگتا ہے لیکن ایکٹنگ مصروفیات کی وجہ سے ماڈلنگ کے لیے ٹائم نہیں نکال پاتی البتہ جب بھی وقت ملتا ہے تو ماڈلنگ ضرور کرتی ہوں جیسا کہ حال ہی میں ماریہ بی کے ساتھ ایک کانٹریکٹ سائن کیا تھا جس کی برانڈایمبیسڈر رہی ۔اب تک کئی برانڈز کی ماڈلنگ کرچکی ہوں فلم کرنے کے بعد علی ظفر کے ساتھ کئی اشتہاری فلموں میں کام کرچکی ہوں ماڈلنگ میں ریمپ پر واک بھی کرچکی ہوںفیشن ویک ہو برائیڈل ویک فلم کی کامیابی نے نئے در کھول دیتے ہیں ۔   دنیا :کہا جاتا ہے کہ من مائل میں آپ کے کیریکٹر منو ، پرخوب تنقید ہوئی تھی اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟  مایا :سچی بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی آخر لوگ بے چاری لڑکی ٹائپ کیریکٹرز پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ویسے میں تو جو بھی رول کرتی ہوں،اس پر عموماً ایسے ہی منفی تاثرات سننے کو ملتے ہیں جیسا کہ ضد،میںایک بولڈ عورت کا رول کیا تو اس پربھی تنقید ہوئی ۔جہاں تک کیریکٹر منو‘ کا تعلق ہے تو وہ ایسی لڑکی ہے جو فیملی اور بچوں کی خاطر بہت کچھ پر سمجھوتہ کرتی ہے اور وہ بری صورتِ حال میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تاہم منو ایک پاورفل عورت کا کیریکٹر ہے اور آگے کی اقساط میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح وہ غلط چیزوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے‘ بہرحال ایسے کردار معاشرے میں موجود ہیں تبھی ہمارے ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں‘ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے‘ اپنی بات کروں اگر اداکارہ نہ ہوتی تو شادی رچاچکی ہوتی‘ شوبز جوائن کرنے پر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑامگر آج صورتِ حال مختلف ہے اور وہی لوگ جو کل حوصلہ شکنی کرتے تھے‘ آج سپورٹ کررہے ہیں    دنیا : آپ نے ثاقب ملک کی کوئی فلم سائن کی تھی مگر پھر مذکورہ پروجیکٹ آگے بڑھ نہیں پا پا، اس بارے میںکچھ بتانا پسند کریں گی؟   مایا :جی ہاں،اس حوالے سے بات چلی تھی اور بہت کچھ چیزیں فائنل ہوگئی تھیں مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوگیا‘ اس میں عثمان خالد بٹ بھی تھا مگر جب چیزیں تاخیر کا شکار ہوئیں تو اس نے بالوماہی‘ سائن کرلی اور میں چند سیریلز میں مصروف ہوگئی تاہم اس سلسلے میں بات چل رہی تھی لیکن معاملات آگے نہیں بڑھ پائے ہیں ا س کے بعد ان کی فلم سائن نہیں کی البتہ علی ظفر کی آفر ہاتھ میں آئی تو انکار نہیں کرسکی جوکہ رومینٹک مووی تھی اور اس کا کردار مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا تھا جس میں پرفارمنس مارجن بہت زیادہ تھا‘ یوں تو فلم کے حوالے سے بہت سے پروجیکٹس مجھے آفر ہوئے ہیں لیکن اپنی پسند کاکام کرنا چاہتی ہوںاور کوشش ہے کہ اچھے پروجیکٹس سائن کروں ۔اس برس ثاقب ملک نے فلم باجی بناکر نمائش کی اور کامیابی سمیٹی تو مسرت ہوئی ۔میرا اور آمنہ الیاس کا کام بہت زبردست رہا ۔اچھی فلمیں ہی سینماگھروں کو آباد کرسکتی ہیں۔   دنیا :عثمان خالدبٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ؟   مایا:شکر ہے آپ نے یہ سوال کیا تاکہ میں اس حوالے سے بہت کچھ کلیئر کرسکوں،عثمان سے میری ملاقات ایک نئی سنڈریلا‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی اور تبھی سے ہم دونوں دوست بن گئے وہ ایک زبردست کو۔اسٹار ہے اور چونکہ ہم دونوں ہی نئے تھے لہٰذا ہم نے ایک ساتھ سیکھنا شروع کردیااس طرح ہمارے درمیان ایک خاص دوستانہ تعلق بن گیا جس سے ہمارے کام پر مثبت اثر پڑا اسی کیمسٹری کا نتیجہ ہے کہ ہم بیسٹ آن اسکرین کپل کا ایوارڈ یافتہ ہیں۔ عثمان نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ۔اب میں نے شہریار منور کے ساتھ فلم کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی تعلق ہے۔ساتھی فنکار کے ساتھ ہم آہنگی فلم اور ڈرامہ کے کردار میں عمدہ پرفارمنس کی بناپر ہونا ضروری امر ہوتا ہے۔   دنیا :کیا یہ درست ہے کہ پڑوس میں بھی کوئی فلم کی آفر ہوئی تھی ؟  مایا : فنکار آزاد ہوتا ہے اس کے فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کام کی آفر کہیں سے بھی آئے اچھا کردار ہی فنکار کو قبول کرنے سے مجبور کرتا ہے ۔ بھارتی فلم میں آفر ہی نہیں ممبئی جاکر فائنل کرچکی تھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات نے فلم سے دور کردیا وہ لوگ دوبئی آکر فلم بنانا چاہتے تھے لیکن میرے لئے سب سے پہلے اپنا ملک پاکستان عزیز ہے ۔اب بھی آفرز ہیں ۔ فنکاروں کو سرحدوں کی قید سے آزاد رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے جب دو ممالک کے درمیان کرکٹ میچ ہوسکتے ہیں اور تجارت ہوسکتی ہے تو فنکار ایک دوسرے کی فلموں اور ڈراموں میں کام کیوں نہیں کرسکتے؟  دنیا :آفر کیسے ملی تھی ؟ اس بارے میں کچھ بتائیں ؟  مایا : میرا کھیل عون زارا‘ بھارتی چینل نے بھی دکھایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تب سے میرے پاس وہاں کی انڈسٹری سے آفرز آنے لگیں،اس سلسلے میں چند ایک اسکرپٹس بھی پڑھے تاہم کوئی مووی سائن نہیں کی ۔بطور پاکستانی مجھ پر خاص ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے کئی فنکار وہاں گئے ہیں لیکن زیادہ تر نے مایوس کیا ہے البتہ چند ایک اچھا کام کررہے ہیں جن میں ماہرہ خان اور فواد خان نمایاں ہیں ، صبا قمر او ر سجل علی نے بھی کمال کاکام کیا جس کی دھوم بالی ووڈ میں رہی بہرحال اگر اچھا موقع ملا اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات رہے تو مجھے بھی بالی ووڈ میں کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔  دنیا : اپنی ہم عصر اداکاراؤں میں کس سے متاثر ہیں؟    مایا :سب سے پہلے تو واضح کردوں کہ خود کو کبھی کسی سے بہتر نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ بطور ایکٹر اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بناؤں اور ایک ہی قسم کے کردار نہ کروں‘ پچھلے دنوں آن لائن ایک آرٹیکل پڑھا جس میں ٹاپ تھری ایکٹریسز میں میرا نام بھی تھا اور باقی دو ماہرہ خان اور صنم سعیدتھیں ‘ یہ پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا،بہرحال سبھی ٹیلنٹڈ ہیں جیسا کہ صنم سعید اور ما ہرہ اس کے علاوہ سجل علی بھی بہت زبردست اداکارہ ہیں اور اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ آمنہ شیخ بھی اچھی ہیں اور ان کے ساتھ اسکرین شیئر کرنا بہت اچھا لگا۔  دنیا:اب تک کا کیریئر سفر کیسا رہا ہے؟   مایا:ابتدا میں مجھے بے چاری یا گرل نیکسٹ ڈور ٹائپ کیریکٹرز ملتے رہے پھر شناخت ،میں ایک مختلف کیریکٹر ملا ، اس حوالے سے ہمیشہ مومنہ درید کی شکرگزار رہوں گی کہ جنہوں نے مجھ پر ہر بار اعتماد کیا ،شناخت ،کے بعداپنی ورسٹالٹی شو کرنے کا موقع ملااور میری ایکٹنگ اسکلز بھی پالش ہوئیں‘ اس کے بعد لوگوں نے مجھ پر اعتماد کرنا شروع کردیا اور یہی میرے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا پھر دیارِ دل ، میرا نام یوسف ہے ، جیسے پلے ز میرے حصے میں آئے جن میں کام کرکے بہت کچھ سیکھاسو یہی کہوں گی کہ میرا کیریئر بہت اچھا رہا ہے ‘ محنت اور قسمت کے ساتھ یہاں تک پہنچی ہوں ۔  دنیا :ٹی وی ڈرامہ کیریئر کے دور ان کون سا کیریکٹر شخصیت سے ریلیٹ کرتا ہے؟   مایا:اب تک جتنا کام کیاان سب سے لطف اندوز ہوتی رہی ہوں جب اس فیلڈ میں آئی تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا حتیٰ کہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سین کس طرح شوٹ ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ کام کرتے ہوئے سیکھتی چلی گئی ۔عون زارا،میں زارا کا کیریکٹر میری اصل شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ آخر ایسا کیوں ہے جس قسم کی مشکلات اور پریشانیاں منو جھیلتی ہے ،اسے ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں اور یہ سیریل دیکھتے ہوئے اکثر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔   دنیا:اس وقت ٹی وی اور فلم میں جس قسم کے موضوعات دکھائے جارہے ہیں ؟  مایا:اس حوالے سے کہا کہ ٹی وی ایک ایسا میڈیم ہے جو معاشرے کے لیے آئینے کا کردار ادا کرتا ہے اور اسی لیے ڈراموں کو حقیقت سے قریب تر ہونا چاہیے جبکہ فلم تفریح سے بھرپور ہوتی ہے جس میں خیالی دنیا بسائی جاتی ہے سو میں سمجھتی ہوں کہ ڈراموں میں ایسے سبجیکٹس کو پیش کیا جائے جس سے سوچ کے در کھلیں جبکہ فلمیں تفریح سے بھرپور ہونی چاہئیں،میں خود مسالہ فلموںکی شوقین ہوںسو ایسی فلمیں دیکھ کر لوگ ریلیکس ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ملا جلا کام ہورہا ہے اور ٹی وی پر کئی اچھے ڈرامے نظر آ رہے ہیں ۔  دنیا :شائقین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟    مایا : تمام شائقین سے محبت کرتی ہوں سو ان سے یہی کہنا ہے کہ ہم آپ کے لیے خوب محنت کرتے ہیں لہٰذا آپ کو بھی چاہیے کہ ہمارے کام کو پسندیدگی سے نوازیں۔پاکستانی فلموں کو سینما گھر جاکر دیکھنے کی عادت ڈالیں اب جدید سینما گھر بن چکے ہیں ۔ ملکی فلموں کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی فلم انڈسٹری کو استحکام دینے میں اپنا کردار ادا کریں

میں ایک چھوٹی سی اداکارہ ہوں ، صف اول کی فنکارائو ں کے مستقبل کے لئے مجھے خطرہ قرار دینا میڈیا کا بڑا پن ہے ابھی طفل مکتب ہوں ، ملکی ٹی وی ڈراموں کی میری پرفارمنس کو دیگر ممالک کے چینلز پر پسند کیا جانا میرے لئے اعزاز ہے۔ اپنے کام سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنا چاہتی ہوں۔ ایک فنکارہ ہونے کے ناطے ثقافتی سفیر کے طور پر بھارتی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔فلم چاہئے کسی ملک کی ہو۔ کام کرنے میں کوئی برائی نہیں کیونکہ فنکار کے لئے سرحدیں نہیں ہوتیں۔صر ف دو گانوںاور پانچ سین کے لئے بھارتی فلم میں کام کرنے کی خواہش مند نہیں ہوں ، جاندار کردار اور عمدہ کہانی ہی میری ترجیح ہے ڈرامہ ہو یا فلم ایک فنکار تو صر ف اداکاری کرتا ہے ۔

دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات بالخصوص ثقافتی تعلقات کے ذریعے فنکار اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ڈرامے اور فلمیں ایک دوسرے کے ملک کی عوام کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے ڈرامے ہی بھارتی عوام میں پسند کئے گئے جس کی بناء پر ہماری شناحت ہوئی۔بالی ووڈ کی فلموں میں کام کرنے کی آفر ملکی فلم طیفا ان ٹربل سے قبل مل چکی تھی، دو برس قبل اکشے کمار کیساتھ بھارتی فلم میں کام کرنے کا معاہدہ تک ہوگیا تھا اور میں اسے سلسلے میں ممبئی بھی پہنچ چکی تھی لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرد تعلقات اور فنکار وں پر پابندی کے باعث اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیاتھا۔ اس فلم کو بعدازاں دوبئی میں مکمل کرنے کی آفر دی گئی لیکن میری نظر میں سب سے پہلے پاکستان ہے ۔

ا پنے ملک کی شناحت میرے لئے فخر کا باعث ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلم انڈسٹری دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو متعارف کراتی ہے۔ اس سے قبل کئی سینئر فنکاروں نے بھی اس انڈسٹری میں جاکر اپنے فن کے ذریعے فنکارانہ صلاحیتوں کو منوایا ، ماہرہ خان، صبا قمر، ماورا حسین ، فواد خان، علی ظفر، عدنان صدیقی ، حمائمہ ملک دیگر موجودہ دور میں بھارتی فلم انڈسٹری میں اپنی فنی صلاحیتوں سے ملک کا نام روشن کرچکے ہیں ان خیالات کا اظہار مقبول ڈرامہ سیریل ’’ درِشہوار‘ ‘سے فنی سفر شروع کرنے والی مایاعلی نے کیا۔

سیڑھی بہ سیڑھی چڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہیں۔ گوکہ ابتدائی ڈراموں میں اس اداکارہ نے کچھ ایسے کردار اداکیے جن سے اس کا گرل نیکسٹ ڈور امیج بن گیا تاہم پھر شناحت کے ذریعے کیریئر میں ٹرننگ پوائنٹ آیا اور پھر اس لڑکی نے اپنی ورسٹالٹی کچھ اس طرح شو کی کہ سبھی کو حیران کردیا، اگر یہ کہا جائے کہ مایا علی اس وقت پاکستانی ڈرامے کی ملکہ ہے تو غلط نہ ہو گاکہ اس کے کریڈٹ پر کئی خوب صورت پلیز ہیں جن میں میرا نام یوسف ہے، دیارِ د ل ،من ما ئل اور عون زار شامل ہیں ۔صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں ،یہ لڑکی کمرشلز اور قابلِ ذکرمیگزینز کے کورز پر بھی چھائی ہوئی ہے ،اس کے علاوہ ریمپ واک کے ذریعے بھی ماڈلنگ ورلڈ میں ایکٹو ہے سو کہہ سکتے ہیں کہ یہ وقت ہے مایا کا جس کا فن خوب تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اس کے فنی فلمی کیریئر میں پہلی فلم طیفا ان ٹربل نے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر کے 25 ممالک میں ایک ساتھ نمائش کا نیا ریکارڈ بنایاتھا تو باکس آفس پر بھی نیا ریکارڈبنادیا تھاجس کا تصور شاید علی ظفر نے فلم بناتے ہوئے بھی نہیں کیا ہوگا۔علی ظفر کے بعد اب میرے فینز مجھے گلوکار و اداکار شہر یار منور کے ساتھ دیکھ کر بہت انجوائے کریں گے ۔ 

گزشتہ دنوں مایا علی سے اس حوالے سے ایک نشست ہوئی جس پر انکا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈرامے اپنی جگہ فلموں کارنگ اور اسکا نشہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

 دنیا : کیریئر کے بارے میں بتائیں ؟

مایا : وی جے کی حیثیت سے کیریئر کا آغاز کیا ۔سچ تو یہ ہے کہ شوبز میں آنے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھااور نہ ہی یہ خیال تھا کہ وی جے بنوں گی ، یہ سب کچھ تو بس اچانک ہی ہوگیا،ایک جگہ انٹرن شپ کررہی تھی کہ مجھے ایک شو کو ہوسٹ کرنے کی آفر آگئی سو یہ سوچ کر اسے قبول کیا کہ اس سے میری سی وی میں وزن بڑھے گا پھر ماڈلنگ کی آفرز ملنے لگیں ، ایک دفعہ لان کے لیے شوٹ کروا رہی تھی ۔ وہاں ٹی وی ڈرامہ ہدایتکارحسیم حسین بھی موجود تھے جوکہ کسی ڈرامے کے لیے نئے چہروں کا آڈیشن لے رہے تھے ،میں نے بھی یونہی آڈیشن دے دیا اور توقع کے برخلاف دُرِشہوار‘ میں میری کاسٹنگ ہو گئی تب سے آگے ہی آگے بڑھتی گئی اور میرا شوبز کیریئر یہاں تک آگیا۔من مائل ڈرامہ سیریل سے مجھے ایک نئی شناحت ملی جس میں میری پرفارمنس ناظرین کو بہت پسند آئی ۔

دنیا : کہا جارہا ہے کہ موجودہ فنکار سینئر فنکاروں کو اہمیت نہیں دیتے اور ان کا احترام نہیں کرتے ؟ اس بارے میں آپ کیاکہتی ہیں ؟

مایا : ذاتی طور پر میں اپنے سینئر کا بہت احترام کرتی ہوں ، ان سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں ، جو ایسا کرتے ہیں وہ درست نہیں کل ہم بھی سنیئر فنکاروں میں شامل ہوجائیںگے۔ اسٹائل ایوارڈ ز میں لیجنڈ فنکارہ شبنم کو ٹری بیوٹ ان پر فلمائے گئے گیت پر پرفارم کرکے پیش کیا ۔ جس کے لئے خصوصی وقت نکال کررقص کی ریہرسل کوریوگرافر نگاہ حسین کی نگرانی میں کی ۔ ہم آج اگر ہیں تو سینئر ز کی وجہ سے ہیں چاہے وہ ٹی وی ڈرامے ہو ںیا فلمیں ان کو زندہ رکھنے میں سینئر فنکاروں کا بڑا حصہ ہے۔

دنیا : فنی کیئر ئیر کی دوسری فلم پرے ہٹ لو کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی ؟ 

مایا : ہدایتکار عاصم رضا نے جب اس فلم کی آفر دی تو ذاتی طور پرخوشی ہوئی لیکن مجھ سے قبل اس فلم میں ماہرہ خان سائن ہو ئی تھیںجب پتہ چلا کہ وہ مصروفیات کی بناء پر اس فلم کو نہیں کررہی ہیں ، تو فلم کو سائن کیا میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ عاصم رضا کی ہدایات میں کام کیا ۔ فلم کے ہیرو شہر یار منور اور ہماری جوڑی شائقین کو پسند آئے گی۔میرے فلمی کیریئر کی دوسری فلم ’’پرے ہٹ لو ‘‘ میں میرا کردار ناظرین کو متاثر کرے گا۔شہر یار منور میرے ہیرو ہیں۔ ہدایتکار عاصم رضا نے بھی فلم پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا ہے ۔ پاکستان ،ترکی کی حسین لوکیشنز فلم شائقین کو متاثر کریں گی۔ 

دنیا :ٹی وی ڈراموں سے دور ہوگئی ہیں ؟

مایا : ایسا کچھ نہیں ؟ میں ایک وقت میں ایک کام کرنے کی عادی ہوں ، فلم پرے ہٹ لو میں مصروف ہونے کی بناء پر ٹی وی ڈرامہ کوئی سائن نہیں کیا۔اشتہاری فلموں اور ماڈلنگ کی آفرز ضرورت سے زیادہ ہوئیں تو اشتہاری دنیا میں مصروف ہوگئیں ۔ اس دوران فلم پرے ہٹ لو مل گئی تو ٹی وی سے دور ہوگئی ۔ اب بھی کئی ٹی وی ڈراموں کی آفر ز ہیں کئی اسکرپٹس بھی میرے پاس پڑے ہیں ان کو پڑھ کر جاندار کردار اور عمدہ اسکرپٹ کو ترجیح دوں گی ۔کئی فلموں کے اسکرپٹس بھی میرے پاس ا ٓئے ہوئے ہیں ان کو پڑھ کر ہی فلم سائن کروں گی ۔کم وقت میں اچھا کام کرنا میری ترجیحات میں شامل ہے۔ 

د نیا :کیا وجہ ہے کہ آپ ماڈلنگ میں زیادہ نظر نہیں آتیں؟

 مایا :ماڈلنگ ایک گلیمرس فیلڈ ہے اور ذاتی طور پر بہت پسند ہے ،کئی بڑے برانڈز کے لیے ماڈلنگ کرچکی ہوں اور ریمپ پر واک کرنا اچھا لگتا ہے لیکن ایکٹنگ مصروفیات کی وجہ سے ماڈلنگ کے لیے ٹائم نہیں نکال پاتی البتہ جب بھی وقت ملتا ہے تو ماڈلنگ ضرور کرتی ہوں جیسا کہ حال ہی میں ماریہ بی کے ساتھ ایک کانٹریکٹ سائن کیا تھا جس کی برانڈایمبیسڈر رہی ۔اب تک کئی برانڈز کی ماڈلنگ کرچکی ہوں فلم کرنے کے بعد علی ظفر کے ساتھ کئی اشتہاری فلموں میں کام کرچکی ہوں ماڈلنگ میں ریمپ پر واک بھی کرچکی ہوںفیشن ویک ہو برائیڈل ویک فلم کی کامیابی نے نئے در کھول دیتے ہیں ۔ 

دنیا :کہا جاتا ہے کہ من مائل میں آپ کے کیریکٹر منو ، پرخوب تنقید ہوئی تھی اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟

مایا :سچی بات ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی آخر لوگ بے چاری لڑکی ٹائپ کیریکٹرز پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ویسے میں تو جو بھی رول کرتی ہوں،اس پر عموماً ایسے ہی منفی تاثرات سننے کو ملتے ہیں جیسا کہ ضد،میںایک بولڈ عورت کا رول کیا تو اس پربھی تنقید ہوئی ۔جہاں تک کیریکٹر منو‘ کا تعلق ہے تو وہ ایسی لڑکی ہے جو فیملی اور بچوں کی خاطر بہت کچھ پر سمجھوتہ کرتی ہے اور وہ بری صورتِ حال میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تاہم منو ایک پاورفل عورت کا کیریکٹر ہے اور آگے کی اقساط میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح وہ غلط چیزوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے‘ بہرحال ایسے کردار معاشرے میں موجود ہیں تبھی ہمارے ڈراموں میں دکھائے جاتے ہیں‘ معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ رکھا جاتا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے‘ اپنی بات کروں اگر اداکارہ نہ ہوتی تو شادی رچاچکی ہوتی‘ شوبز جوائن کرنے پر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑامگر آج صورتِ حال مختلف ہے اور وہی لوگ جو کل حوصلہ شکنی کرتے تھے‘ آج سپورٹ کررہے ہیں 

 دنیا : آپ نے ثاقب ملک کی کوئی فلم سائن کی تھی مگر پھر مذکورہ پروجیکٹ آگے بڑھ نہیں پا پا، اس بارے میںکچھ بتانا پسند کریں گی؟ 

مایا :جی ہاں،اس حوالے سے بات چلی تھی اور بہت کچھ چیزیں فائنل ہوگئی تھیں مگر پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوگیا‘ اس میں عثمان خالد بٹ بھی تھا مگر جب چیزیں تاخیر کا شکار ہوئیں تو اس نے بالوماہی‘ سائن کرلی اور میں چند سیریلز میں مصروف ہوگئی تاہم اس سلسلے میں بات چل رہی تھی لیکن معاملات آگے نہیں بڑھ پائے ہیں ا س کے بعد ان کی فلم سائن نہیں کی البتہ علی ظفر کی آفر ہاتھ میں آئی تو انکار نہیں کرسکی جوکہ رومینٹک مووی تھی اور اس کا کردار مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا تھا جس میں پرفارمنس مارجن بہت زیادہ تھا‘ یوں تو فلم کے حوالے سے بہت سے پروجیکٹس مجھے آفر ہوئے ہیں لیکن اپنی پسند کاکام کرنا چاہتی ہوںاور کوشش ہے کہ اچھے پروجیکٹس سائن کروں ۔اس برس ثاقب ملک نے فلم باجی بناکر نمائش کی اور کامیابی سمیٹی تو مسرت ہوئی ۔میرا اور آمنہ الیاس کا کام بہت زبردست رہا ۔اچھی فلمیں ہی سینماگھروں کو آباد کرسکتی ہیں۔

 دنیا :عثمان خالدبٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ؟ 

مایا:شکر ہے آپ نے یہ سوال کیا تاکہ میں اس حوالے سے بہت کچھ کلیئر کرسکوں،عثمان سے میری ملاقات ایک نئی سنڈریلا‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی اور تبھی سے ہم دونوں دوست بن گئے وہ ایک زبردست کو۔اسٹار ہے اور چونکہ ہم دونوں ہی نئے تھے لہٰذا ہم نے ایک ساتھ سیکھنا شروع کردیااس طرح ہمارے درمیان ایک خاص دوستانہ تعلق بن گیا جس سے ہمارے کام پر مثبت اثر پڑا اسی کیمسٹری کا نتیجہ ہے کہ ہم بیسٹ آن اسکرین کپل کا ایوارڈ یافتہ ہیں۔ عثمان نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے ۔اب میں نے شہریار منور کے ساتھ فلم کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی تعلق ہے۔ساتھی فنکار کے ساتھ ہم آہنگی فلم اور ڈرامہ کے کردار میں عمدہ پرفارمنس کی بناپر ہونا ضروری امر ہوتا ہے۔

 دنیا :کیا یہ درست ہے کہ پڑوس میں بھی کوئی فلم کی آفر ہوئی تھی ؟

مایا : فنکار آزاد ہوتا ہے اس کے فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کام کی آفر کہیں سے بھی آئے اچھا کردار ہی فنکار کو قبول کرنے سے مجبور کرتا ہے ۔ بھارتی فلم میں آفر ہی نہیں ممبئی جاکر فائنل کرچکی تھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات نے فلم سے دور کردیا وہ لوگ دوبئی آکر فلم بنانا چاہتے تھے لیکن میرے لئے سب سے پہلے اپنا ملک پاکستان عزیز ہے ۔اب بھی آفرز ہیں ۔ فنکاروں کو سرحدوں کی قید سے آزاد رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے جب دو ممالک کے درمیان کرکٹ میچ ہوسکتے ہیں اور تجارت ہوسکتی ہے تو فنکار ایک دوسرے کی فلموں اور ڈراموں میں کام کیوں نہیں کرسکتے؟

دنیا :آفر کیسے ملی تھی ؟ اس بارے میں کچھ بتائیں ؟

مایا : میرا کھیل عون زارا‘ بھارتی چینل نے بھی دکھایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ تب سے میرے پاس وہاں کی انڈسٹری سے آفرز آنے لگیں،اس سلسلے میں چند ایک اسکرپٹس بھی پڑھے تاہم کوئی مووی سائن نہیں کی ۔بطور پاکستانی مجھ پر خاص ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کے کئی فنکار وہاں گئے ہیں لیکن زیادہ تر نے مایوس کیا ہے البتہ چند ایک اچھا کام کررہے ہیں جن میں ماہرہ خان اور فواد خان نمایاں ہیں ، صبا قمر او ر سجل علی نے بھی کمال کاکام کیا جس کی دھوم بالی ووڈ میں رہی بہرحال اگر اچھا موقع ملا اور دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات رہے تو مجھے بھی بالی ووڈ میں کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

دنیا : اپنی ہم عصر اداکاراؤں میں کس سے متاثر ہیں؟ 

 مایا :سب سے پہلے تو واضح کردوں کہ خود کو کبھی کسی سے بہتر نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ بطور ایکٹر اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بناؤں اور ایک ہی قسم کے کردار نہ کروں‘ پچھلے دنوں آن لائن ایک آرٹیکل پڑھا جس میں ٹاپ تھری ایکٹریسز میں میرا نام بھی تھا اور باقی دو ماہرہ خان اور صنم سعیدتھیں ‘ یہ پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا،بہرحال سبھی ٹیلنٹڈ ہیں جیسا کہ صنم سعید اور ما ہرہ اس کے علاوہ سجل علی بھی بہت زبردست اداکارہ ہیں اور اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ آمنہ شیخ بھی اچھی ہیں اور ان کے ساتھ اسکرین شیئر کرنا بہت اچھا لگا۔

دنیا:اب تک کا کیریئر سفر کیسا رہا ہے؟

 مایا:ابتدا میں مجھے بے چاری یا گرل نیکسٹ ڈور ٹائپ کیریکٹرز ملتے رہے پھر شناخت ،میں ایک مختلف کیریکٹر ملا ، اس حوالے سے ہمیشہ مومنہ درید کی شکرگزار رہوں گی کہ جنہوں نے مجھ پر ہر بار اعتماد کیا ،شناخت ،کے بعداپنی ورسٹالٹی شو کرنے کا موقع ملااور میری ایکٹنگ اسکلز بھی پالش ہوئیں‘ اس کے بعد لوگوں نے مجھ پر اعتماد کرنا شروع کردیا اور یہی میرے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا پھر دیارِ دل ، میرا نام یوسف ہے ، جیسے پلے ز میرے حصے میں آئے جن میں کام کرکے بہت کچھ سیکھاسو یہی کہوں گی کہ میرا کیریئر بہت اچھا رہا ہے ‘ محنت اور قسمت کے ساتھ یہاں تک پہنچی ہوں ۔

دنیا :ٹی وی ڈرامہ کیریئر کے دور ان کون سا کیریکٹر شخصیت سے ریلیٹ کرتا ہے؟

 مایا:اب تک جتنا کام کیاان سب سے لطف اندوز ہوتی رہی ہوں جب اس فیلڈ میں آئی تو کچھ بھی معلوم نہیں تھا حتیٰ کہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ سین کس طرح شوٹ ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ کام کرتے ہوئے سیکھتی چلی گئی ۔عون زارا،میں زارا کا کیریکٹر میری اصل شخصیت سے خاصی حد تک میچ کرتا ہے البتہ منو کا کردار میرے دل سے بہت قریب ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ آخر ایسا کیوں ہے جس قسم کی مشکلات اور پریشانیاں منو جھیلتی ہے ،اسے ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں اور یہ سیریل دیکھتے ہوئے اکثر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ۔

 دنیا:اس وقت ٹی وی اور فلم میں جس قسم کے موضوعات دکھائے جارہے ہیں ؟

مایا:اس حوالے سے کہا کہ ٹی وی ایک ایسا میڈیم ہے جو معاشرے کے لیے آئینے کا کردار ادا کرتا ہے اور اسی لیے ڈراموں کو حقیقت سے قریب تر ہونا چاہیے جبکہ فلم تفریح سے بھرپور ہوتی ہے جس میں خیالی دنیا بسائی جاتی ہے سو میں سمجھتی ہوں کہ ڈراموں میں ایسے سبجیکٹس کو پیش کیا جائے جس سے سوچ کے در کھلیں جبکہ فلمیں تفریح سے بھرپور ہونی چاہئیں،میں خود مسالہ فلموںکی شوقین ہوںسو ایسی فلمیں دیکھ کر لوگ ریلیکس ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ملا جلا کام ہورہا ہے اور ٹی وی پر کئی اچھے ڈرامے نظر آ رہے ہیں ۔

دنیا :شائقین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟ 

 مایا : تمام شائقین سے محبت کرتی ہوں سو ان سے یہی کہنا ہے کہ ہم آپ کے لیے خوب محنت کرتے ہیں لہٰذا آپ کو بھی چاہیے کہ ہمارے کام کو پسندیدگی سے نوازیں۔پاکستانی فلموں کو سینما گھر جاکر دیکھنے کی عادت ڈالیں اب جدید سینما گھر بن چکے ہیں ۔ ملکی فلموں کی حوصلہ افزائی کرکے اپنی فلم انڈسٹری کو استحکام دینے میں اپنا کردار ادا کریں

x

Check Also

شرمین عبید چنائے نے ایک اور اعزاز حاصل کر لیا

شرمین عبید چنائے نے ایک اور اعزاز حاصل کر لیا

آسکر اکیڈمی ایوارڈ یافتہ، پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنائے نے ایک اور عزاز حاصل کر ...

%d bloggers like this: