کراچی :وفاقی حکومت نے غریبوں پر ایک اور بم گرا دیا۔ غریب کی سواری بھی اب مہنگی ہوگی۔وفاقی حکومت نے موٹرسائیکل اوررکشے پرودھ ہولڈنگ ٹیکس لگانے کافیصلہ کرلیاہے،ٹیکس سےیہ سواری بھی عام آدمی کی دسترس سے دورہوجائےگی۔ موٹر سائیکل اور رکشے پر ودھ ہولڈنگ ٹیکس لگنے کے بعد نئی موٹر سائیکل کی رجسٹریشن فیس 17 ہزار روپے اضافےکےبعد 20ہزار9سوروپے ہو جائے گی جو اس وقت3 ہزار 4 سو روپے ہے ۔ اسی طرح رکشے کی رجسٹریشن فیس 7 ہزار روپے اضافےکےبعد 10 ہزار 750 روپے ہو جائے گی جو اس وقت 3 ہزارایک سو ہے۔ ایف بی آر کے نئے فیصلے کے تحت ساٹھ ہزار روپے کی موٹرسائیکل کی رجسٹریشن پر اڑتیس ہزار چار سو روپےرجسٹریشن فیس دینا ہوگی۔ رجسٹریشن فیس میں صوبے وفاق کے لیے پینتیس ہزار ودہولڈنگ ٹیکس اکھٹا کریں گے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس سترہ ہزار پانچ سو روپے ہے۔ اس طرح انہیں بیس ہزار نو سو روپے رجسٹریشن فیس ادا کرنا ہوگی۔ اس سے پہلے موٹرسائیکل کی رجسٹریشن فیس تین ہزار چار سو روپے تھی۔ اسی طرح رکشہ چلانے والوں کو اب ڈیڑھ لاکھ روپے کے رکشہ کی رجسٹریشن فیس کی مد میں 18ہزار400 روپے ٹیکس دیناہوگا۔رکشے کی رجسٹریشن فیس میں صوبے وفاق کے لیے15ہزار300روپےودہولڈنگ ٹیکس اکھٹا کریں گے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے محکمہ ایکسائز سندھ کو ٹیکس کی وصولی کیلئے خط لکھا ہے جس میں موٹر سائیکل اور رکشے پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگانے کا کہا گیاہے۔ یاد رہے کہ ایف بی آر نے کراچی کیلئے جائیداد کی نئی قیمت کا تعین کرلیا ہے جس کے تحت جائیدادوں کی قیمت میں 66 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ کراچی کے شہریوں کا کہناہے کہ عوام پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہی ہے اورمزید ٹیکسز سےمشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ سندھ کے وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاولہ نے کہاہے کہ ایف بی آرکی طرف سےحکم نامہ موصول ہواہے،فائلرپرساڑھے7ہزارنان فائلرپر15ہزارٹیکس لگایاگیاہے،موٹرسائیکل رکشےپربھی ٹیکس لاگوکیاہے۔ مکیش کمار چاولہ نے کہا ہے کہ نئےٹیکسزسےغریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے موٹرسائیکل اور رکشہ پر ٹیکسز سے متعلق نوٹی فکیشن کی تصدیق کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے وضاحت کل صبح دیں گے۔

بحران کی وجہ ’بدعنوانی سے زیادہ غیر پیداواری منصوبے ہیں‘

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطِف میاں نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ مالیاتی بحران کی بنیادی وجہ کرپشن سے زیادہ وہ بیرونی قرضے ہیں جنھیں غیر پیداواری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر خرچ کیا گیا۔

بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ڈاکٹر عاطف میاں کو پچیس ‘روشن ترین’ نوجوان ماہرینِ اقتصادیات میں شامل کیا تھا۔ انھیں تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انھیں اکنامک ایڈوائزری کونسل میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے ان کی شمولیت ممکن نہ ہوسکی۔

ڈاکٹر میاں نے سنہ 2007 کے عالمی مالیاتی بحران کی وجہ بننے والے گھروں کے قرضوں سے شروع ہونے والے دیوالیے کا تجزیہ کیا تھا۔ یہ تجزیہ ایک کتاب ‘ہاؤس آف ڈیٹ’ (قرضوں کے مکان) کے نام سے شائع ہوا تھا۔

بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ ‘اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرپشن نقصان تو پہنچاتی ہے، لیکن ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جو ترقی کا ماڈل اپنایا ہے یہ اب بنیادی طور پر چل ہی نہیں سکتا ہے۔’

‘کرپشن ہو یا نہ ہو، اب یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ ماڈل اب مستقل بنیادوں پر چل سکے۔ جب تک آپ بیرونی طاقتوں پر انحصار کریں گے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے، آپ کا ترقی کا یہ ماڈل اب چل ہی نہیں سکتا۔’

قرضوں والا ماڈل کیا ہے؟

انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ چین یا مشرقِ بعید کے ایشیائی ممالک، مثلاّ کوریا وغیرہ کی مثال لیں تو ان سب نے ان کی ترقی کی اصل اور بنیادی وجہ، ملک کی اندرونی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہے اور ان ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں کہ ان قرضوں کو اگر ایسے منصوبے میں لگایا جائے جن سے اتنی آمدن نہ ہو جن سے یہ قرضہ اتارا جا سکے تو پھر ایسے قرضے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسی لیے نہ صرف ہم نے قرضے لیے بلکہ ان قرضوں کی ایسی جگہوں پر سرمایہ کاری کی کہ اس سے معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اور ان قرضوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکا۔ ‘اسی لیے ہم بار بار ائی ایم ایف کی طرف جاتے ہیں۔ بار بار بیل آؤٹ کی طرف جاتے ہیں۔’

آئی ایم ایف کا 13واں پیکیج

سنہ 1980 کی دہائی کے بعد سے اب تک پاکستان اپنے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بارہ مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کر چکا ہے اور موجودہ حکومت کا رجوع کرنا تیرھویں مرتبہ ہے۔

بار بار آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو اقتصادی ماڈل اپنایا ہوا ہے اس میں ایسی خرابیاں ہیں کہ ہر چار یا پانچ سال کے بعد ملک کی معاشی صورتِ حال بہت بگڑ جاتی ہے۔

اس ماڈل کی خامی

قرضوں والے اکنامک ماڈ ل کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ اس میں سب سے بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں یہ سوچا جاتا ہے کہ باہر سے قرضے لے کر یا کسی قسم کی امداد لے کر ملک میں ترقی دکھائیں۔

‘اس ماڈل میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بیرونی پیسہ آرہا ہوتا ہے تو اقتصادی ترقی کے اشارے نظر آرہے ہوتے ہیں۔’

جب قرضے بند ہوجاتے ہیں؟

ڈاکٹر عاطف میاں کہتے ہیں اس روپیہ سے نظر آنے والی ترقی عارضی اور وقتی ہوتی ہے، کیونکہ جیسے ہی وہ روپیہ آنا بند ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ معیشت بھی سست ہونا شروع کردیتی ہے۔

باوجود اس کے کہ اس بیرونی قرضوں سے ملک میں سرمایہ کاری تو ہوتی ہے لیکن یہ سرمایہ کاری ایسے منصوبوں میں کر دی جاتی ہے جن سے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتا۔

‘اس لیے جب قرضے بند ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انھیں واپس کرنا ہے اور جب وہ منصوبہ جس پر سرمایہ کاری ہوئی ہوتی ہے اس سے آمدن نہیں ہوتی ہے تو پھر اس منصوبے کے قرض کی رقم واپس کرنے کے لیے پھر سے قرضہ لینا پڑتا ہے، جسے بیل آؤٹ کہتے ہیں۔’

ڈاکٹر عاطف میاں کے مطابق، بیل آؤٹ کی وجہ سے معیشت سست روی کا شکار ہوجاتی ہے، معیشت میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور آپ کے پاس زرِ مبادلہ بھی نہیں ہوتا ہے تاکہ آپ بیرونی قرضے کی ادائیگی کرسکیں۔

آئی ایم ایف کا ٹیکسوں کا ہدف

اس سوال کے جواب میں کہ آئی ایم ایف کا ایک ہدف کہ پاکستان اپنے محصولات (ٹیکسوں کے ذریعے آمدن) کو مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد حصے سے بڑھا کر پندرہ فیصد کرے، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ یہ ہدف حاصل کرنا ‘ہے تو نہ صرف مشکل، لیکن اگر یہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملک میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ ٹیکس ریوینیو میں اتنا بڑا اضافہ ہوگا۔’

‘دنیا کے اگر دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو (ٹیکسوں کا مجموعی قومی پیداوار میں تناسب) اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر عالمی معیار سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا یہ ہدف زیادہ مشکل نہیں ہے۔’

اس سوال پر کے پاکستان یہ ہدف گزشتہ ادوار میں کیوں نہیں حاصل کرسکا، ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان میں ہر مسئلے کا اگر حل ڈھونڈیں گے تو اس کے حل ملک کے اندر ہی نظر آئیں گے۔

پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر

موجودہ حکومت کی پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا کہ پاکستان کا اس وقت بنیادی مسئلہ بیرونی ادائیگیاں ہیں جس کے لیے برآمدات میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔

‘آپ گھر بنا کر انھیں برآمد تو نہیں کر سکتے ہیں۔۔۔۔ جو کام آپ کو کرنا چاہئیے یہ اس سے بالکل الٹ کام کریں گے اگر آپ ایسا کریں گے۔ (اگر یہ گھر بننا شروع ہو گئے) تو آپ کا کثیر سرمایہ اور لیبر ایک ایسے کام میں لگ جائے گی جسے آپ برآمد نہیں کرسکتے ہیں۔ بلکہ اس سے درآمدات بڑھیں گیں۔۔۔۔ اور بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ پیچیدہ تر ہوگا’

بنیادی مسئلہ ریاست کی صلاحیت میں کمی

جب ڈاکٹر عاطف میاں سے پوچھا کہ اس ہدف کو حاصل نہ کرپانے میں بڑا مسئلہ کیا ہے، آیا تقسیمِ دولت مسئلہ ہے، چوری ہے یا دفاعی بجٹ ہے تو انھوں نے کہا کہ ‘اصل مسئلہ ریاست کی صلاحیت میں کمی ہے۔’

‘اگر آپ نے کوئی بھی کام کرنا ہو، خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت سمیت کئی مسائل ہیں، ایسے ملک میں ریاست میں اپنے اندر صلاحیت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے کام سرانجام دے سکے اور انتظامی کام کر سکے۔ اس صلاحیت کو پیدا کرنا ہوگا اور بہتر کرنا ہوگا۔’

ان کے مطابق یہ صلاحیت پاکستان کی ریاست کو خود سے پیدا کرنا ہو گی، یہ کام آپ کے لیے چین یا سعودی عرب یا امریکہ سے آکر تو کوئی نہیں کرے گا، یہ سب کام پاکستانی اداروں کے ذریعے ہی کرنا ہے، یہ صلاحیت تو خود ہی پیدا کرنا ہوگی لیڈرشپ بھی خود پیدا کرنا ہوگی۔

آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں تاخیر

اس سوال پر کہ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی جانب رجوع کرنے میں دیر کی جس کی وجہ سے تکالیف بڑھ گئی، ڈاکٹر عاطف میاں نے کہا ‘جس حالت میں پاکستان تھا اس میں نہ صرف موجودہ حکومت نے دیر کی بلکہ یہ حالت نواز شریف کی حکومت کے آخری سال میں بھی بہت واضح تھی۔’

‘تو ان حالات کا احساس نواز شریف کی حکومت کو اپنے آخری سال میں کرلینا چاہئیے تھا، لیکن انھوں نے تاخیر کی کیونکہ وہ الیکشن میں جا رہے تھے۔’

ڈاکٹر میاں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو قرضوں کی لت لگی رہی ہے۔ ‘یہ ایک بری عادت ہے جو ہمیں نشے کی طرح لگ چکی ہے۔ ماضی میں جو دو حکومتیں آئیں، بلکہ جب بھی حکومتیں انتخابات لڑ کر آتی ہیں تو ان پر دباؤ ہوتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو کچھ دکھانا ہے۔’

ان کے مطابق کارکردگی کے دکھانے کو دو راستے ہیں، یا تو مشکل طریقہ استعمال کریں جو کے دائمی طریقہ ہے، یعنی نظام کو بہتر بنائیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔

‘اس طرف جانے کی بجائے وہ آسان رستہ ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح قرضے لے کے (کام چلا لیں)، لیکن قرضہ لینے کا مطلب ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے اپنی اگلی نسل کا مستقل گروی رکھ دیا ہو۔’

نوٹ: یہ اسٹوری بی بی سی اردو سے لی گئی ہے

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: