سابق کپتان، سابق ہیڈ کوچ اور ماضی کے عالمی شہرت یافتہ فاسٹ بولر وقار یونس کا کہنا ہے کہ فٹنس پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسلہ ہے،ہم اپنے کھلاڑیوں کو وقت پر ریٹائر نہیں کرتے۔
ہارسے ڈرتے ہوئے سینئرز کے کیریئرز کو طول دینے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا،سینئرز کو ورلڈ کپ کھلانے کے چکر میں ہم بہت پیچھے چلے جاتے ہیں، حالیہ ورلڈ کپ میں ہم نے فٹنس پر کمپرومائز کیا، جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کسی بھی کام کے لئے اہل شخص کا تقرر کیا جائے، مستقل مزاجی بھی ضروری ہے،سسٹم کو چلانے کے لئے اچھا وقت دینا چاہیے۔ انہوں نے شعیب ملک اور محمد حفیظ کا براہ راست نام لینے سے گریز کیا۔
سابق ہیڈ کوچ نے ان خیالات کا اظہار لندن میں نمائندہ جنگ کو خصوصی انٹر ویو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم دو طرفہ سیریز بری نہیں کھیلتے، تاہم ورلڈ کپ یا کسی بڑے ٹورنامنٹ میں ہمارے کپتان کوچز سب ٹیسٹ ہوجاتے ہیں اور فٹنس کی قلعی کھل جاتی ہے۔
ہمیں سری لنکا اور بنگلہ دیش کی سیریز کے بجائے آسٹریلیا کی بڑی سیریز کے لئے تیاری کرنی چاہیے،تین سال پہلے جب میں چھوڑ کر گیا تھا تو نئے کوچ نے فٹنس کی بات کی تھی،اس ورلڈ کپ میں ہم نے فٹنس پر کمپرو مائز کیا اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
دوسری ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان ٹیم میں یہ بات واضح دکھائی دی کہ ہم فٹنس پر کمپرومائز کرکے جن پندرہ کھلاڑیوں کو لائے تھے ان کی سلیکشن پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کپتان،کوچ اور سلیکٹرز نے جس طرح سلیکشن پر کمپرو مائز کیا وہ چیزیں واضح دکھائی دیں۔
اس پر یہ کہہ دینا کہ ہم ورلڈ کپ کے چار آخری میچ اچھا کھیلے ہیں اس لئے اب آنکھیں بند کر لینی چاہیے، درست بات نہیں، عزت بچ گئی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم اس وقت جیتنے لگے جب ہم پر جیت کے لئے دباو کم ہوگیا،افغانستان کے ساتھ جس طرح آخری اوور میں جیتے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
وقار یونس کی جگہ2016 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مکی آرتھر کا تقرر کیا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ کوچز اور کپتان کو تین چار سال کا وقت دینا چاہیے، میں نے تین سال پہلے مارڈرن کرکٹ کا لکھ کر دیا تھا۔
یہ کہا تھا کہ ہمیں ساڑھے جدید تکنیک والی کرکٹ کھیلنا ہوگی، فٹنس کی بات کی تھی۔ کرکٹ کو آگے جانا چاہیے، لیکن میری تجاویز کے باوجود تین سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ہمارے پاس آج بھی وہ کرکٹر نہیں ہیں جو مستقل بنیادوں پر تین سو ساڑھے تین رنز بناسکیں۔
وقار یونس نے کہا کہ پاکستان ٹیم تو دور کی بات ہے انڈر19 اور اکیڈمی لیول پر بھی فٹنس کا فقدان ہے، اکیڈمیز،انڈر19 اور پاکستان اے ٹیم کے کھلاڑی سپر فٹ ہونے چاہیں،ہمارے کرکٹر جب انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے آتے ہیں تو ان کا فٹنس معیار انٹر نیشنل سے کم تر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ ورلڈ کپ کے بعد کس کو بدلیں اور کس کو لائیں،نیا کرکٹ بورڈ اپنی حکمت عملی اور اپنا سسٹم لائے گا، فرسٹ کلاس سسٹم کو بھی تبدیل کیا جارہا ہے، میڈیا کی بھی ذمے داری ہے کہ نئے سسٹم کی حمایت کریں۔
کھلاڑی کی عمر پوری ہونے کے بعد اسے ریٹائر کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی،جب ورلڈ کپ قریب آتا ہے تو ہار کے ڈرسے اسے ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
وقار یونس نے کہا کہ پچیس تیس سال پیچھے چلے جائیں ہم ہار سے بچنے کے لئے سینئرز کو کھلا کر اپنے لئے مسائل پیدا کردیتے ہیں،ورلڈ کپ کی پلاننگ کرتے ہوئے ایک لائن کھینچنی چاہیے کہ ایک سال رہ گیا ہے ہمیں کہاں جانا چاہیے،سلیکشن پر حکمت عملی بنانا بے حدضروری ہے۔