امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کی افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے کے دوران صدر اشرف غنی سے ملاقات میں طالبان سے جاری امن مذاکرات اور ستمبر میں افغان صدارتی انتخاب سے قبل سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مائیک پومپیو نے نئی دہلی روانہ ہونے سے قبل افغانستان میں اسٹاپ اوور کیا۔
بھارت کے دورے کے دوران وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
مائیک پومپیو نے افغانستان میں 7 گھنٹے گزارے اور ان کا یہ مختصر دورہ امریکی حکام اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے ساتویں مرحلے کے آغاز سے قبل سامنے آیا۔
افغان امن مذاکرات کے اگلے مرحلے کا آغاز 29 جون سے دوحا میں ہوگا۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ‘مجھے امید ہے کہ یکم ستمبر سے قبل امن معاہدہ ہوجائے گا اور یہی ہمارا مشن ہے۔’
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے وقت پر غور کیا جائے گا، جبکہ طالبان سے یہ ضمانت لی جائے گی کہ افغان سرزمین سے مستقبل میں کوئی حملہ نہیں ہوگا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم طالبان پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ ہم اپنی افواج نکالنے کے لیے تیار ہیں لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے فوج کے انخلا کے وقت پر اتفاق نہیں کیا ہے۔’
واضح رہے کہ افغان فوج کی تربیت، معاونت اور مدد کے لیے امریکا کی سربراہی میں نیٹو مشن کے 20 ہزار غیر ملکی فوجی اہلکار افغانستان میں تعینات ہیں جن میں سے زیادہ تر امریکی ہیں۔
امریکا نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بدلے میں طالبان سے اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کیا تھا کہ دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان کو بیس کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ ‘ہم مانتے ہیں کہ امن ہماری اولین ترجیح ہے اور یہ کہ افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘دونوں فریقین اس مسودے کو حتمی شکل دینے تقریباً قریب پہنچ چکے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان، دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین آئندہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہوگی۔’
انہوں نے واضح کیا کہ ‘ہم افغانستان کے عوام یا حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔’